پروین رحمٰن قتل کیس: ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار

13 دسمبر 2022
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں بری ہونے والے پانچ افراد کی نظر بندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت نظربندی کے نوٹیفکیشن کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا۔

پانچویں ملزم عمران سواتی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس کریم خان آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر سعید احمد منگنیجو، پراسیکیوٹر جنرل سندھ فیض ایچ شاہ اور سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) غلام نبی میمن عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالتی حکم نامے میں سندھ ہائی کورٹ نے یکم دسمبر کے احکامات کو کالعدم قرار دیا اور واضح کیا کہ پولیس عقیلہ اسمعٰیل اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی) کے دیگر ممبران کو سیکیورٹی اور مکمل تحفظ فراہم کرے کیونکہ یہ ان کی قانونی ذمہ داری ہے۔

’نظر بندی کے احکامات کس نے دیے‘

سماعت کے دوران عدالت نے بری ہونے والے افراد کی نظربندی پر آئی جی غلام نبی میمن سے استفسار کیا۔

جج نے پوچھا کہ زیر حراست افراد کو کیوں رہا نہیں کیا جارہا جبکہ عدالت نے اس حوالے سے 21 نومبر کو احکامات دیے تھے۔

عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کس کی رپورٹ پر نظربند کیا گیا ہے اور اس کے کیا ثبوت تھے۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ اس معاملے کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ تھی اور پروین رحٰمن کی بہن عقیلہ اسمعٰیل (جو اس وقت اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ ہیں) نے درخواست دی تھی، جس پر پولیس اب بھی کام کررہی ہے۔

اس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا ثبوت پیش کریں گے اور ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیا۔

اس کے بعد عدالت نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ بری کیے گئے افراد کے خلاف کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے، سوال اٹھایا کہ اگر کوئی ریکارڈ نہیں تھا تو پھر انہیں خطرناک مجرم کیوں قرار دیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ بہت ہو گیا، اب کوئی معذرت برداشت نہیں کی جائے گی، عمران سواتی مقدمے میں بری ہونے والے پانچ افراد میں سے ایک ہیں، 7 سال سے سلاخوں کے پیچھے تھے۔

’عدالت صرف ثبوتوں کو دیکھے گی‘

دریں اثنا، حکومتی وکیل نے انٹیلی جنس رپورٹس عدالت میں جمع کرانے کے بعد کہا کہ عقلیہ اسمعیل کو ممکنہ خطرات کے پیش نظر سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔

تاہم عدالت نے حکومتی وکیل کو پولیس افسر کی معاونت کرنے سے روک دیا، ’آپ مزید یہ نہیں کرسکتے۔

اس کے بعد عدالت نے آئی جی کو دوبارہ روسٹرم پر بلا کر ان سے پوچھا کہ یہ دونوں رپورٹس کس کی ہیں۔

پولیس سربراہ نے بتایا کہ ایک رپورٹ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور دوسری اسپیشل برانچ کی ہے۔

عدالت نے غلام نبی میمن سے استفسار کیا کہ پولیس نے سیکیورٹی فراہم کردی ہے تو انہیں کیسے احساس ہوا کہ عقیلہ اسمعٰیل کو ممکنہ خطرات ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ سوشل میڈیا پر اشارے ملے ہیں۔

جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ عدالت کو میڈیا کی پروا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف ثبوتوں اور قانون کو دیکھیں گے، سب کچھ قانون کے دائرے میں ہوگا۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا کسی کو بغیر کسی شواہد کے تین مہینوں کے لیے زیر حراست رکھا ہے، ایمانداری سے بتائیں، آپ نے کیوں انہیں نظر بند رکھا ہوا ہے؟

آئی جی غلام نبی میمن نے عدالت کو کہا کہ ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، آپ کو ایمانداری سے بتا رہا ہوں، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوگا۔

سندھ پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ تفتیش کی ضرورت کیوں ہے؟ اسے بھول جائیں، انہیں بری کر دیا گیا ہے، مزید کہا کہ انہیں پولیس چیف پر بھروسہ نہیں ہے۔

غلام نبی میمن نے جواب دیا کہ یقین کریں یا نہیں، یہ آپ کا اسحقاق ہے، سر اسپیشل برانچ کی رپورٹس ہیں۔

تاہم، جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ ان رپورٹس کو چھوڑیں، اس میں کچھ نہیں ہے اور پوچھا کہ کس کے پاس اسپیشل برانچ کا کمانڈ اینڈ کنٹرول ہے؟ یہ آسان سوال ہے، بتائیں۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے عدالت کو بتایا کہ اسپیشل برانچ ان کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

اس کے بعد عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کہ نظر بند کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے۔

ڈاکٹر سعید احمد منگنیجو نے کہا کہ رپورٹس کی بنیاد یہ حکم پر جاری کیا گیا۔

عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ ملزمان جیل میں ہیں اور اورنگی ٹاؤن نہیں گئے تو یہ انہیں کیسے پتا چلا کہ وہ عقیلہ اسمعٰیل کو قتل کریں گے۔

جسٹس کریم خان آغا نے سیکریٹری داخلہ سے پوچھا کہ کیا وہ انگریزی زبان سمجھ سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی میں سمجھ سکتا ہوں۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب سیکریٹری داخلہ نے لوگوں کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کیے ہیں، ایسا پہلے بھی دو بار ہو چکا ہے، آپ لوگ ان تنازعات پر جھگڑے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر سعید احمد منگنیجو نے بتایا کہ جو مواد انہیں بھیجا گیا تھا، اس کا 6 دن تک جائزہ لیا، میں نے کیس سے متعلقہ مواد کا جائزہ لینے کے بعد نظربندی کے احکامات جاری کیے۔

بعد ازاں عدالت نے صوبائی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو سندھ حکومت سے مشاورت کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت وقفے کے لیے ملتوی کردی۔

’حکومت نے میرٹ کے خلاف نوٹی فکشن جاری کیا‘

جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تمام ملزمان کو دفاع کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ درخواست گزار نے ایم پی او کے قانون کو چیلنج نہیں کیا، اور بری کیے گئے افراد کو حراست میں لینے کے لیے میڈیا کا دباؤ نہیں تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس ہمیشہ مکمل شکل میں نہیں ہوتیں، انہوں نے کہا کہ نظربندی کا نوٹس درست طریقے سے جاری کیا گیا۔

دوسری جانب درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ محمود قریشی نے بتایا کہ یہ نوٹی فکیشن میرٹ کے خلاف ہے، جو مفروضات اور افواہوں کی بنیاد پر جاری کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نظر بندی کا نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10 کے خلاف ہے۔

یاد رہے کہ یکم دسمبر کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی) کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے قتل کیس میں بَری ہونے والے پانچ ملزمان کو حراست میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ملزمان کو حراست میں لینے کی سفارش انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کی جانب سے انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت کو لکھے گئے خط میں کی گئی تھی۔

پروین رحٰمن کی بہن عقیلہ اسمعیل (جو اس وقت اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ ہیں) نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا، پولیس حکام نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر پہلے ہی پانچ نامزد ملزمان رہا ہوچکے ہیں، پولیس کے مطابق انہیں دوبارہ حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔

حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے عقیلہ اسمعیل نے کہا تھا کہ پروجیکٹ آفس کے قریب رہا ہونے والے ملزمان کھلے نقل و حرکت کرنے کی وجہ سے وہ اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کا عملہ خوف زدہ اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں مبینہ طور پر ملوث پانچوں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا اور عدم ثبوت کی بنا پر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

پروین رحمٰن کا قتل کیس

خیال رہے کہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم وہ اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

گزشتہ سال مارچ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ضمنی چارج شیٹ میں ملزمان نے انکشاف کیا گیا تھا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن نے قتل سے 15 ماہ قبل انٹرویو کے دوران اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی ’زمین پر قبضہ کرنے والوں اور بھتہ خوروں‘ کی نشاندہی کی تھی۔

دوران سماعت ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی زیر نگرانی جے آئی ٹی کے ڈائریکٹر ڈی آئی جی پولیس بابر بخت قریشی نے ضمنی چارج شیٹ دائر کی تھی، جے آئی ٹی کے مطابق فری لانس صحافی فہد دیش مکھ نے پروین رحمٰن سے انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے ملزم رحیم سواتی کے ساتھ تنازع کا ذکر کیا تھا جو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی اراضی پر کراٹے کا مرکز قائم کرنا چاہتا تھا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹرویو میں پروین رحمٰن نے رحیم سواتی کو ’زمینوں پر قبضہ کرنے والا اور بھتہ خور‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے صحافی فہد دیش مکھ کا بیان فوجداری طریقہ کار کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت درج کیا۔

چارج شیٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ گواہوں کے شواہد اور بیانات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروین رحمٰن کو رحیم سواتی اور اس کے ساتھیوں نے قتل کیا۔

واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980 میں عمل میں آیا تھا، یہ این جی او اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات پر نظر رکھتی ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے گواہوں کے بیانات اور دلائل مکمل ہونے کے بعد 15 اکتوبر 2021 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور گزشتہ سال 17دسمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قتل میں ملوث 4 ملزمان کو 2،2 مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں