افواج پاکستان کو نیب دسترس سے باہر رکھنے پر آپ کی رائے؟ جسٹس منصور کا پی ٹی آئی وکیل سے استفسار

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2022
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کیس میں قانونی خلاء کو پر کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کیس میں قانونی خلاء کو پر کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ افواج پاکستان کو نیب کی دسترس سے باہر رکھنے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ افواج پاکستان کو باہر رکھنے کا عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں قانونی خلا پر کیا تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون سے افواج پاکستان کو باہر رکھنے کی وجوہات کیا ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نیب قانون کی دسترس سے تو ججز بھی باہر نہیں، افواج پاکستان کو باہر رکھنے کا یہ عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی، ایک شخص کو لاکھوں عوام نے ووٹ دے کر رکن پارلیمنٹ منتخب کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ افواج پاکستان کو نیب کی دسترس سے باہر رکھنے پر آپ کی کیا رائے ہے، آپ نے دلائل میں کہا کہ رکن پارلیمنٹ عوامی اعتماد کا امانت دار ہے، منتخب رکن پارلیمان سے باہر نکل کر کہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کا پارلیمان چھوڑ کر سڑکوں پر فیصلے کرنے سے جمہوری نظام کیسے چلے گا؟ اگر رکن پارلیمنٹ عوام کا اعتماد جیت کر آئے تو پارلیمان میں بیٹھیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں قانونی خلا پر کیا تھا، اسفند یار ولی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ترامیم کالعدم قرار دیں تھیں۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اسفند یار ولی کیس میں عدالت نے انسانی حقوق سے منافی ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا، نیب ترامیم کیس میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مسنگ ہے اس کو شامل کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے جو شقیں نکالی گئیں ان سے قانون ہی غیر مؤثر ہو گیا، نیب ترامیم کے خلاف اس مقدمے میں نیب قانون اصل حالت میں بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب کی جن شقوں میں ترمیم ہوئی وہ بنیادی حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں بہت سے سقم بھی تھے، نیب قانون میں کسی شخص کو محض الزام پر 90 روز کے لیے گرفتار کر لیا جاتا تھا،ترامیم ملکی قانون میں پیش رفت ہیں، نیب قانون پر ترمیم سے پہلے بہت تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نیب سمیت کسی بھی فوجداری مقدمے میں تحقیقات کے دوران گرفتاری کا حامی نہیں ہوں، اچھے سے اچھے قانون پر بھی عمل کرنے والے نا ہوں تو وہ بےوقعت ہوتا ہے، یہ نہیں چاہتے کہ تمام نیب ترامیم کالعدم قرار دی جائیں، ترامیم میں پارلیمنٹ کی نیت دیکھنا بھی ضروری ہے جبکہ پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہی نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نیت جاننے کے لیے نیب ترامیم پر جو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہو گی، حکومتی وکیل کا مؤقف ہے کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہوئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم کے خلاف عوام بھی کچھ کہہ رہی ہے یا پھر عدالت خود سے تعین کرے کہ نیب ترامیم سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درشن مسیح کیس میں عوام نے عدالت سے رجوع کیا تھا، کیا نیب ترامیم کیس میں عوام نے عدالت سے رجوع کیا ہے،تاہم عدالت نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کل (13 دسمبر) تک ملتوی کر دی۔

’نیب ترامیم‘

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں