پبلک اکاؤنٹس کمیٹی: سیاستدانوں، فوجی سربراہان، ججز کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2022
نور عالم خان نے کہا کہ جو دستاویز ہمیں ملے گا اس وزیر یا گورنر کے خلاف کارروائی ہوگی — فائل فوٹو: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ویب سائٹ
نور عالم خان نے کہا کہ جو دستاویز ہمیں ملے گا اس وزیر یا گورنر کے خلاف کارروائی ہوگی — فائل فوٹو: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ویب سائٹ

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے 2013 سے تمام سیاستدانوں، فوجی سربراہان، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب کرلیں۔

پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی صدارت میں ہوا جس میں آڈیٹر جنرل اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

دوران اجلاس چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ پہلے آڈٹ کے سوالات کے تمام جوابات صرف چیئرمین دفتر میں آتے تھے، مگر میں نے ہدایت کی ہے کہ معلومات تمام اراکین کو فراہم کی جائے۔

کمیٹی کے رکن ڈاکٹر ملک مختار نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی نے کسی این جی او کو مکانات بنانے کے لیے 5 ارب روپے دیے، لہٰذا آڈٹ حکام چیک کریں کہ آیا کہ یہ رقم کن افراد کو دی گئی اور کیا واقعی 20 ہزار مکانات تعمیر ہوئے۔

اس پر آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اس کی مکمل آڈٹ رپورٹ دیں گے۔

چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ گزشتہ سات سالوں کے توشہ خانے کا مکمل ریکارڈ آڈیٹر جنرل کو فراہم کیا جائے اور 2015 سے 2022 تک کا توشہ خانے کا ریکارڈ آڈیٹر جنرل کے دفتر کو فراہم کیا جائے۔

اس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ریکارڈ 2013 سے لیا جائے، تاہم چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ ’چلیں 2013 سے کر لیں، اس میں تمام سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات پیش کی جائیں۔‘

چیئرمین پی اے سی نے تحائف کی معلومات فراہم کرنے کے لیے سیکریٹری کابینہ ڈویژن، سپریم کورٹ، آرمی، نیوی اور ایئر فورس اور صوبائی گورنرز کو خط لکھ دیا۔

سرکاری مکانات اور زمینوں کو واگزار کرانے کے معاملے پر چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کو لکھیں۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرول پمپس، پلازا اور دیگر پراپرٹی کو خالی کریں، خالی کرکے اخبارات میں اشتہار دے کر آج کی تاریخ کے مطابق اس کو دوبارہ دیا جائے۔

نور عالم خان نے کہا کہ جو دستاویز ہمیں ملے گا اس وزیر یا گورنر کے خلاف کارروائی ہوگی اور اگر اس میں کسی وزیر کو گرفتار کرنا ہو تو کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور آڈیٹر جنرل ایک کام مکمل کریں، اور جو افسر تعاون نہ کریں ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

چیئرمین نے آڈیٹر جنرل سے کہا کہ آپ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو رپورٹ کرنا ہے۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے وزیراعظم انسپکشن کمیشن اسلام آباد کی عمارت، نیب کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔

اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ اس کا جواب ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو (نیب) کو دینے کے لیے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔

آڈٹ حکام نے کہا کہ اسٹیٹ آفس کئی بار یہ عمارت خالی کروانے کے لیے نوٹس دے چکا ہے جس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب دفتر 15 دنوں میں خالی کرانے کا حکم دے دیا۔

نور عالم خان نے کہا کہ نوٹس جاری کرکے لکھ لیں کہ نیب دفتر خالی کروایا جائے اور جتنے بقایاجات ہیں وہ آڈیٹر جنرل کے ذریعے ادا کریں۔

چیئرمین نے مزید کہا کہ اگر خالی نہیں کرتے تو اسلام آباد پولیس، رینجرز اور ایف سی کی مدد لیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو آرمی کی مدد بھی طلب کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں