پرویز الٰہی کو آبائی حلقوں میں ترقیاتی فنڈز بانٹنے سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

20 دسمبر 2022
درخواست میں چیف سیکریٹری پنجاب اور نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
درخواست میں چیف سیکریٹری پنجاب اور نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کو اپنے آبائی حلقوں کے لیے عوامی ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار ایڈووکیٹ میاں داؤد نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ مختلف سرکاری اداروں کو عوامی آمدن سے ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں جاری کرنے یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے حلقوں کے بالواسطہ تصرف میں دینے سے روکا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے آبائی ضلع کو ڈویژن کا درجہ دیا اور پھر ترقیاتی اسکیموں کی مد میں گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے چوہدری حسین (این اے 68، گجرات-1)، مونس الٰہی (این اے-69، گجرات-2)، ساجد احمد بھٹی (پی پی-67، منڈی بہاؤالدین-3) کے حلقوں سمیت اپنے حلقے پی پی 430، گجرات-3 کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے خاندان کے افراد کے انتخابی حلقوں میں فنڈز کی غیر متناسب تقسیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے مزید استدعا کی کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) یا کسی اور ایجنسی کو آئینی شقوں کی خلاف ورزی اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی ہدایت کرے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’معلوم ہوتا ہے کہ 70 فیصد فنڈز موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے حلقوں کے لیے ہیں، سپلیمنٹ گرانٹس اس کے علاوہ ہیں جو گجرات میں تمام ڈویژنل دفاتر میں ضروری ساز و سامان اور انفرا اسٹرکچر پر خرچ کیے جائیں گے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 23-2022 کے لیے پنجاب کا کُل ترقیاتی بجٹ تقریباً 700 ارب روپے تھا جس کا بڑا حصہ گجرات ڈویژن کے لیے مختص کیا گیا جس میں 4 چھوٹے اضلاع (گجرات، منڈی بہاؤالدین، وزیر آباد اور حافظ آباد) شامل ہیں لیکن اس کا بڑا حصہ 2 خاندانوں کے لیے رکھا گیا۔

گجرات سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں چوہدری پرویز الٰہی، ان کے صاحبزادے مونس الٰہی اور چوہدری وجاہت حسین کے صاحبزادے چوہدری حسین الٰہی شامل ہیں۔

درخواست گزار نے چیف سیکریٹری پنجاب، سیکریٹری خزانہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈییارٹمنٹ، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، اکاؤنٹنٹ جنرل آفس اور نیب کو فریق بنایا۔

درخواست میں یاد دہانی کروائی گئی کہ عدالت عظمیٰ نے 2014 میں کہا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس سپلیمنٹری یا اضافی گرانٹ کے حوالے سے کوئی صوابدیدی اختیار نہیں ہے اور یہی بات یکساں طور پر وزرائے اعلیٰ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ 2014 کے ایک فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 82 اور 83 میں فراہم کردہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر وفاقی حکومت کی جانب سے اخراجات ان دفعات کو منسوخ کرنے کے مترادف ہوگا۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہے کہ عوامی نمائندے قومی خزانے اور فنڈز سے جڑے امور سرانجام دینے کے دوران عوامی اعتماد، شفافیت اور گڈ گورننس کے آئینی احکامات اور اصولوں کی پاسداری کریں۔

درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر استدعا کے مطابق عبوری ریلیف نہ دیا گیا تو سرکاری خزانے اور ریاستی محصولات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ انتخابی حلقوں میں فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں علاقائی سطح پر عدم مساوات کا تاثر پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست کی سماجی و اقتصادی ہم آہنگی کمزور پڑ جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں