پاک افغان بارڈر پر جاری تناؤ کا حل تلاش کرنے اور بحالی امن کی کوشش کے لیے چمن سے تعلق رکھنے والے مذہبی اسکالرز اور قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک وفد قندھار روانہ ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ وفد سرحدی جھڑپوں کے معاملے پر افغان طالبان قیادت کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔

مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ ایک 16 رکنی وفد ہے جس کی سربراہی ممتاز مذہبی اسکالر قاری اسلم علم یار کر رہے ہیں، وفد میں قبائلی عمائدین اور چمن کے ممتاز کاروباری رہنما شامل ہیں‘۔

یہ وفد قندھار کے گورنر حاجی محمد وفاند اور افغان طالبان کے دیگر سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کرے گا تاکہ سرحد کے دونوں جانب کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کی جاسکے۔

ان مذاکرات کا اہتمام ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب حال ہی میں پاکستان میں شہری بستی پر افغان سرحدی فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری میں کم از کم 9 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

مذاکرات کے لیے قبائلی عمائدین اور مذہبی رہنماؤں پر مشتمل وفد بھیجنے کا فیصلہ 17 دسمبر کو طے شدہ فلیگ میٹنگ ملتوی ہونے کے بعد کیا گیا۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے سیکیورٹی حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکتے کیونکہ افغان سیکیورٹی حکام کو افغان رہنماؤں کے درمیان دھڑے بندی کے چیلنج کا سامنا ہے، اس صورتحال میں افغان طالبان سرحدی علاقوں میں حالات معمول پر لانے کے لیے ٹھوس اقدامات یقینی نہیں بنا سکتے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قندھار کے گورنر اور دیگر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد وفد ضرورت پڑنے پر افغان حکومت کے اعلیٰ حکام بشمول وزیر دفاع ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب سے مزید مذاکرات کے لیے کابل کا دورہ بھی کر سکتا ہے۔

دریں اثنا پاکستان اور افغان فورسز کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھاری ہتھیاروں سے لیس اپنی اپنی پوزیشنوں پر چاک و چوبند تعینات ہیں۔

قبل ازیں سینیئر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ایک ٹیم تمام مطلوبہ ادویات کے ساتھ چمن پہنچی تاکہ افغان فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری کے متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mansour Haidar Raja Dec 20, 2022 08:33am
افغانستان کے معاملات میں جس طرح مذھبی راہنماؤں کے ذریعے کوئی حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ھے یہ عمل غیر دانشمندانہ ، سطحی اور بہت ہی خطرناک رحجان کو فروغ دینے کے مترادف ھے ، آگے چل کر ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات کو مذھبی بنیادوں استوار یا بحال کرنے کا پیش خیمہ بن سکتا ھے ، اس کام کا سارا بوجھ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بھگتنا پڑے گا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ھوتے جائیں گے ۔