پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم نہیں ملتوی کیا، اعتماد کا ووٹ مانگنا غیر قانونی ہے، سبطین خان

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2022
سبطین خان نے کہا ہوسکتا ہے آج کا اجلاس ہم ملتوی کر دیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
سبطین خان نے کہا ہوسکتا ہے آج کا اجلاس ہم ملتوی کر دیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسٌپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے گزشتہ روز اپنے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خلیل طاہر سندھو، خواجہ عمران نذیر، میاں مرغوب اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ اور دیگر اراکین نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

آج صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سبطین خان نے کہا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا غیر قانونی سمجھتا ہوں، ہم نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم نہیں کیا تھا بلکہ اسے ملتوی کیا تھا، پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے آج کا اجلاس ہم ملتوی کردیں، گورنر پنجاب نے پہلے بھی اجلاس ایوان اقبال میں بلایا تھا، اگر شوق ہے تو گورنر پنجاب اب بھی اجلاس بلا لیں وزیر اعلیٰ وہاں نہیں جائیں گے۔

ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ صورتحال سے گھبرائے ہوئے ہیں، جس پر
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے جواب دیا کہ کیا میری شکل دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم گھبرائے ہوئے ہیں، ہم پراعتماد ہیں۔

گزشتہ روز اپوزیشن اراکین کی جانب سے محمد سبطین خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد میں کہا گیا تھا کہ ’قواعد انضباط کار صوبائی اسمبلی پنجاب 1997 کے آرٹیکل 53 کی ضمنی شق 7 سی، آئین کے آرٹیکل 127 کے تحت اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان پر ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے‘۔

اپوزیشن اراکین نے مؤقف اپنایا تھا کہ ’صوبائی اسمبلی پنجاب کے معاملات آئین کے تابع نہیں چلائے جارہے ہیں اور ملکی صورت حال کے زیر اثر انہوں نے پنجاب اسمبلی میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا، لہٰذا ایوان اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے‘۔

بعد ازاں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے 18 معطل ارکان کو اسمبلی اجلاس میں بیٹھنے، ووٹ ڈالنے کی اجازت

ادھر لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے تمام 18 معطل ارکان کو کل پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد بلال اور جسٹس رسال حسن نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 18 ارکان پراجلاس میں شرکت پرپابندی کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ کیا رانا مشہود پر پابندی کے خلاف درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے، جس پر ان کے وکیل رانا اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ 15 نشستوں پر پابندی پوری ہو چکی ہے لیکن قانونی سوال برقرار ہے، اسپیکر نے (ن) لیگ کے 18 ارکان پر 15 نشستوں کے اجلاس میں شرکت پر پابندی لگائی، اسپیکر کے لیے ضروری ہے کہ پابندی سے پہلے 2 وارننگ دے۔

رانا اسد ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ اسپیکر 15 روز کے لیے معطل کر سکتا ہے، 15 نشستوں کے لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی، عدالت نے استفسار کیا کہ 15 دن اور 15 نشستوں پر اسپیکر کا کیا مؤقف ہے جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اس کا ایک حقیقی اور ایک قانونی پہلو ہے، میرے مؤکل کے مطابق یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ بظاہر تو 15 روز کا وقت پورا ہو چکا ہے، مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ اگر ارکان پر اجلاس میں شرکت پر پابندی نہیں ہے تو ہماری درخواست غیر مؤثر ہوگئی ہے، اب اسپیکر کی مرضی ہے کہ وہ ان ارکان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔

اسپیکر اسمبلی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ تو ان ارکان کے رویے پر منحصر ہے، وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس طرح تو یہ درخواست ابھی غیر مؤثر نہیں ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کل درخواست گزاروں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے، وکیل ارکان مسلم لیگ (ن) منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہے جس میں ووٹ کا حق استعمال ہونا ہے، یہ ارکان اپنے حلقے کے نمائندے ہیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرنا ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک ہے۔

فریقین کے دلائل اور مؤقف سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے تمام 18 ایم پی ایز کو کل کے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر ووٹنگ ہوئی تو یہ ارکان ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں