افغانستان: خواتین کا اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف سخت احتجاج، متعدد گرفتار

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2022
مظاہرہ کرنے والی خواتین نے کہا کہ ’طالبان نے خواتین کو جامعات سے نکال دیا ہے—فوٹو: اے ایف پی
مظاہرہ کرنے والی خواتین نے کہا کہ ’طالبان نے خواتین کو جامعات سے نکال دیا ہے—فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں جامعات میں اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف خواتین نے شدید احتجاج کیا جبکہ حکام نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکام کی جانب سے جامعات میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کیے جانے کے خلاف خواتین نے کابل میں شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق مظاہرہ کرنے والی خواتین نے کہا کہ ’طالبان نے خواتین کو جامعات سے نکال دیا ہے، ہماری مدد کریں، حقوق سب کے لیے ہوں یا پھر کسی کے لیے نہیں‘۔

احتجاج کرنے والوں میں سے ایک خاتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’خواتین پولیس اہلکاروں نے چند مظاہرین کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے دو کو رہا کردیا گیا اور متعدد تاحال پولیس کی حراست میں ہیں‘۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش فوٹیجز میں حجاب اور ماسک پہنی متعدد خواتین کو سڑکوں پر مارچ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 20 دسمبر کو افغانستان کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے نجی اور سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں طالبان کی طرف سے افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے کم ہوتے جا رہے تھے جہاں اس سال کے آغاز میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کو گرفتاریوں، تشدد اور سماجی مسائل کا سامنا کرنے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خواتین نے پہلے ملک کی سب سے بڑی جامعہ کابل یونیورسٹی کے سامنے جمع ہونے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکام کی جانب سے وہاں بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کے بعد جگہ تبدیل کر دی۔

20 دسمبر کو خواتین اور لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے اعلان نے عالمی سطح پر تشویش اور غصہ کو جنم دیا ہے جہاں امریکا، اقوام متحدہ اور متعدد مسلم ممالک اس فیصلے کو سختی سے مسترد کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ہزاروں افراد کو یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دینے کے بعد اس پر اعتراضات سامنے آئے کہ یہ عمل اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

مظاہرے میں شریک ہیرات یونیورسٹی میں صحافت کی طالبہ واحدہ واحد درانی نے کہا کہ ’افغان لڑکیاں مردہ ہیں، خون کے آنسو رو رہی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ (طالبان) اپنی پوری قوت ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں، مجھے خوف ہے کہ وہ جلد ہی یہ اعلان بھی کریں گے کہ خواتین کو سانس لینے کی اجازت بھی نہیں ہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین پر متعدد پابندیاں بشمول اعلیٰ تعلیم، ملازمت، پارکس میں جانے سمیت مرد کے علاوہ اکیلے سفر کرنے پر عائد کر رکھی ہے۔

طالبان حکام کی طرف سے خواتین پر مکمل لباس اور برقع پہننے پر بھی سختی کی گئی ہے جس کے خلاف بھی متعدد شہروں میں مظاہرے ہو چکے ہیں۔

طالبان نے حالیہ ہفتوں میں مبینہ جرائم پر مردوں اور خواتین کو سرعام کوڑے مارتے ہوئے اسلامی قوانین سخت سے نافذ کرنے کا پیغام دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ آج افغانستان کے بدخشاں اور اروزگان صوبوں میں 6 خواتین سمیت 44 افراد کو مختلف جرائم میں کوڑے مارے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں