نفرت انگیز تقریر کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کی بعد از گرفتاری ضمانت منظور کرلی

23 دسمبر 2022
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پروسیکیوشن نے ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ ملزم نے مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے— فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پروسیکیوشن نے ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ ملزم نے مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے— فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے نفرت انگیز تقریر کے ملزم کی 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض بعد از گرفتاری درخواست ضمانت منظور کر لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کے سائبر کرائمز ونگ نے 15 اکتوبر کو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل کے مطابق یہ ’انوکھا کیس‘ تھا جس میں پولیس نے پہلے درخواست گزار کو گرفتار کیا اور اس کے بعد موبائل فون کے تجزیے کے دوران کچھ ’قابل اعتراض‘ مواد برآمد کیا۔

وکیل کے مطابق بعد میں ایف آئی اے نے درخواست گزار کے خلاف برآمد شدہ مواد کی بنیاد پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 11 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-اے اور 298-اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔

ایف آئی اے نے ملزم کو اپنے یوٹیوب چینل پر ’نفرت انگیز مواد‘ اپ لوڈ کرنے کی شکایت پر گرفتار کیا۔

وکیل نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے کو درخواست گزار کے موبائل فون ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے دوران کوئی شواہد نہیں ملے، انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ نے موبائل فون اسٹوریج سے ملنے والے ذاتی نوعیت کے پیغامات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی۔

وکیل نے استدلال کیا کہ 2 افراد کے درمیان نجی پیغامات کی بنیاد پر ایف آئی آر کا اندراج نجی زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عثمان وڑائچ نے عدالت کے روبرو استدلال کیا کہ کیس میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ درخواست گزار نے اسے یوٹیوب لنک کے ذریعے توہین مذہب کی ویڈیو بھیجی۔

لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ ایف آئی اے ملزم کے موبائل فون سے ویڈیو ریکور کرنے میں ناکام رہی۔

جسٹس بابر ستار نے نوٹ کیا کہ مبینہ قابل اعتراض مواد درخواست گزار نے فیس بک میسنجر کے ذریعے اپنے دوست کو بھیجا، یہ ایک پرائیویٹ بات چیت تھی، اس لیے یہ پبلک ڈومین میں نہیں آتی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ پر کوئی دوسرا مواد موجود نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہو کہ درخواست گزار نے بین المذاہب، فرقہ وارانہ یا نسلی منافرت کو ہوا دینے یا بڑھانے کے لیے کوئی معلومات تیار کی یا پھیلائی۔

جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ پروسیکیوشن نے درخواست گزار کے خلاف کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ملزم نے مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے۔

انہوں نے ان ریمارکس کے ساتھ درخواست گزار کو بعد از گرفتاری ضمانت دی کہ ریاست یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزر کے خلاف درج مقدمات میں کارروائی کے لیے مناسب مواد ریکارڈ پر موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں