رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

ہانگ کانگ کا چیونگ کانگ سینٹر وہاں کی بہترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ 68 منزلہ یہ عمارت ہانگ کانگ کی تیسری سب سے بڑی عمارت ہے۔ اس عمارت میں دیگر دفاتر کے ساتھ ساتھ چیونگ کانگ ہولڈنگز اور کچھ دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ تاہم کچھ عرصے سے ہانگ کانگ کی بلند و بالا عمارتوں میں سے تقریباً چوتھائی عمارتیں خالی پڑی ہیں اور شہر کے کئی مہنگے کمرشل مقامات بھی خالی ہی ہیں۔

ہانگ کانگ پر اس وقت کئی عوامل اثر انداز ہورہے ہیں۔ چین کے ساتھ ہانگ کانگ کی سرحدیں بند ہیں جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں جو اس شہر کو ملک میں اپنی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔

دنیا کے دوسرے کونے میں موجود امریکا میں اگرچہ ویکسین کے ذریعے کورونا وائرس کو قابو کرلیا گیا مگر اس کے باوجود وہاں صورتحال مزید خراب ہے۔ اندازہ یہ لگایا گیا تھا کہ ایک بار کورونا ختم ہونے کے بعد دفاتر میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں دفاتر کو واپس آئیں گے تاہم یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔

مین ہیٹن کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق فضائی سفر کرنے والوں اور کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد تو کورونا سے پہلے کی تعداد کے برابر ہوگئی ہے لیکن دفاتر ابھی بھی بہت حد تک خالی ہیں۔

مین ہیٹن میں دفاتر میں کام کرنے والے افراد میں سے اب صرف 40 سے 50 فیصد افراد ہی روز دفتر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے سب وے نظام میں گنجائش سے بہت کم مسافر سفر کرتے ہیں جبکہ یہ سب وے نظام شہر کی آمدن کا ایک ذریعہ ہے۔

صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز شہر میں تمام خالی دفاتر کو مستقل طور پر سستی رہائش گاہوں میں تبدیل کرنے پر غور کررہے ہیں۔

فیس بک اور ایمازون جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جنہوں نے کورونا کے آغاز میں دفاتر کی جگہیں خریدی تھیں انہوں نے یہ خریداری یا تو روک دی ہے یا پھر وہ اب ان جگہوں کو فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سان فرانسیسکو میں کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مرکزی دفاتر موجود ہیں اور وہاں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے اور گھر سے کام کی اجازت کی وجہ سے شہر کا ڈاؤن ٹاؤن سنسان ہوچکا ہے۔

ملازمین کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ شہری خدمات استعمال کرنے والے بھی کم ہوگئے یعنی آمدن میں بھی کمی ہوگی۔ ہانگ کانگ کے چیونگ کانگ سینٹر کی طرح نئی تعمیر ہونے والی سیلز فورس ٹاور بھی جزوی طور پر خالی ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کمپنی میں بھی لوگ گھروں سے کام کرتے ہیں۔

دفاتر کے استعمال کے بدلتے رجحانات اس بات کا اظہار ہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی آنے کو ہے۔ اگرچہ مقامی اداروں میں کام کرنے والے پاکستانی شاید فوری طور پر کسی تبدیلی کا مشاہدہ نہ کریں اور شاید انہیں فوری طور پر گھر سے کام کرنے کی سہولت میسر نہ ہو لیکن گھر سے کام کرنے کی صورت میں اخراجات میں جو بچت ہوتی ہے اس کی وجہ سے ممکن ہے کہ نئی کمپنیوں کے کام کرنے کے طریقے پر یہ اثر انداز ہوگی۔

یہ خاص طور پر ان کاروبار کے بارے میں ہے جن کی مصنوعات کی قیمت کا تعین اشیا کو پہنچانے کی لاگت پر ہوتی ہے نہ کہ دفتر میں موجودگی پر ملنے والی تنخواہ پر۔ وہ لوگ جو اس تبدیلی سے قاصر رہیں گے انہیں بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ان حریفوں سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے جو اس تبدیلی کو اختیار کرلیں گے۔

پاکستان میں انتظامی عہدوں کی درجہ بندی کا ماڈل شاید دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت دیر تک موجود رہے لیکن بلآخر کم لاگت کے فوائد اس ذہنیت کو ختم کردیں گے جن کے نتیجے میں ایک باس ملازمین کو دفاتر میں اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔

ٹیلنٹ کی عالمی مارکیٹ میں ایک اور بڑی تبدیلی کے بھی امکانات ہیں۔ حالیہ ماہ میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر افراد کو نوکری سے نکالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ورک فرام ہوم کے ماڈل کو تسلیم کررہی ہیں۔ اس طرح وہ کمپنیاں بیرونِ ملک سے بھی افراد کو کانٹینٹ ماڈریشن اور اس قسم کے دیگر کاموں کے لیے ملازمتوں پر رکھ سکتی ہیں۔

اگر گزشتہ صدی میں آنے والی بڑی تبدیلی اشیا کی تیاری کو مغربی ممالک سے ایشیا اور لاطینی امریکا کی سستی مارکیٹوں تک منتقلی تھی تو اس صدی کی بڑی تبدیلی مخصوص قسم کی ٹیکنالوجی ملازمتوں کی ایشیائی انجینیئروں اور کوڈرز تک منتقلی ہوگی۔

اگر واقعی ایسا ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ دنیا بھر میں ٹیلنٹ کا استعمال کرنے کے رجحانات میں تبدیلی آئے گی۔ موجودہ نظام کے تحت تو لوگوں کو کام کے لیے بیرونِ ملک جانا پڑتا ہے اور پاکستان سے تو صرف گزشتہ سال ہی ہزاروں باصلاحیت اور ہنرمند افراد بیرونِ ملک چلے گئے۔

بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کو نہ صرف خود ہجرت کرنی پڑتی ہے بلکہ اپنے گھروالوں کو بھی اس عمل سے گزارنا پڑتا ہے اور ورک ویزا کی حدود اور دیگر مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ مگر گھر سے کام کرنے کی صورت میں نقل مکانی کا رجحان بہت کم ہوجائے گا۔ ڈاکٹروں کو تو کام کی جگہ پر موجود ہونا پڑتا ہے لیکن ان کے علاوہ شاید مالیاتی شعبے، انجینیرنگ، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی بیرونِ ملک کام کرسکتے ہیں۔

مغربی عوام میں امیگریشن کی حمایت ختم ہونے کے ساتھ، غیر ملکی شہریوں کی خدمات کو کم خرچ پر استعمال کرنے کی یہ نئی شکل ہر ایک کے لیے بہترین حل ہوسکتی ہے۔

وہ پاکستانی جو اس وقت اپنے کیریئر کا انتخاب کررہے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے فیصلے لینے والے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان بدلتے رجحانات کو مدِنظر رکھیں۔ اگر کسی غیر ملک میں ہجرت کا مقصد ہے تو پھر طب کے شعبے یا اس جیسا کوئی پیشہ اختیار کیا جائے جس میں آپ کو کام کی جگہ پر موجود ہونا ہو۔ اگر کوئی گھر سے کام کرنے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جو ممکنہ طور پر دوسرے شعبوں میں ابھریں گے تو اسے یہ جاننا ضروری ہے کہ ’سلیک‘ (Slack) اور اسی طرح کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے ٹیموں کو کس طرح منظم کیا جا رہا ہے۔

کسی فرد میں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ٹیم کے ساتھ گھر سے بیٹھ کر کام کرنے کی جتنی زیادہ استعداد ہوگی، اسے ملازمت ملنے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

گزشتہ نصف صدی کے زیادہ تر حصے میں لوگوں نے روزگار کے لیے ہجرت ہی کی ہے۔ نئے دور میں اس تعداد میں کمی دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ لوگ کہاں رہتے ہیں اور کہاں کام کرتے ہیں یہ اب 2 بالکل الگ الگ معاملات بن گئے ہیں۔ اب لوگ جسمانی طور پر تو ایک دوسرے سے دُور ہوں گے لیکن ان کے ذہن ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے۔


یہ مضمون 21 دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں