اسلام آباد ہائیکورٹ: متنازع ٹوئٹس نہیں کیں، اعظم سواتی کی درخواست ضمانت میں مؤقف

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2022
سینیٹر اعظم سواتی کو 27 نومبر کو ایف آئی اے نے ریاستی اداروں کے خلاف ٹوئٹس کرنے پر گرفتار کیا تھا — فوٹو: یوٹیوٹ اسکرین گریب
سینیٹر اعظم سواتی کو 27 نومبر کو ایف آئی اے نے ریاستی اداروں کے خلاف ٹوئٹس کرنے پر گرفتار کیا تھا — فوٹو: یوٹیوٹ اسکرین گریب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے زیر حراست سینیٹر اعظم خان سواتی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے دائر درخواست میں کہا ہے کہ انہوں نے سینئر فوجی حکام کے خلاف متنازع ٹوئٹس نہیں کیں اور کسی بھی قابل احترام ادارے کو بدنام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

اعظم سواتی کو 27 نومبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اسلام آباد سے ریاستی اداروں اور سینئر افسران کے خلاف ٹوئٹس کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، فوجی افسران کے بارے میں ٹوئٹس کرنے پر انہیں دو مہینے سے کم وقت میں ایف آئی اے نے دوسری بار گرفتار کیا تھا۔

رواں ہفتے کے اوائل میں سینیٹر اعظم خان سواتی نے اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی تاہم ان کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے کورٹ نے کہا تھا کہ انہوں نے ایک ہی جرم دو بار کیا ہے۔

سینیٹر اعظم سواتی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی، جس میں خصوصی عدالت کے احکامات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

درخواست میں وفاق اور اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے افسر انیس الرحمٰن کو فریق بنایا گیا ہے، جن کی مدعیت میں اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔

وکیل کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ اعظم سواتی کو حکومت کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے پھنسایا گیا، ان کے خلاف مقدمات بدنیتی کے تحت درج کیے گئے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اعظم سواتی کو پہلے بھی جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں دیا گیا تھا لیکن کوئی مجرمانہ چیز نہیں ملی تھی, لہٰذا انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں سینیٹر کو پمز ہسپتال سے اٹھایا گیا، جہاں انہیں علاج کے لیے آئی جی بلوچستان کے جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا تھا۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک سماعت میں تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں مزید مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف سندھ میں درج ایک اور ایف آئی آر کے تحت انہیں دوبارہ اٹھا لیا گیا۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے ان کے خلاف تمام ایف آئی آر کو سی کلاس میں ڈال دیا تھا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اعظم سواتی کے خلاف پورا کیس دستاویزی الزام ہے اور انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس کیس کی تحقیقات پہلے ہی مکمل ہو چکی ہیں اور تفتیش کے لیے درخواست گزار کی مزید ضرورت نہیں ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی جائے۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

خیال رہے کہ 27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک متنازع ٹوئٹ کی گئی جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں