الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کیلئے حد بندی پر ’یو ٹرن‘ لے لیا

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2022
نئی حد بندی کا فیصلہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن بنا دے گا— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
نئی حد بندی کا فیصلہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن بنا دے گا— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے بظاہر حد بندیوں کے معاملے پر یوٹرن لیتے ہوئے اپنے تفصیلی حکم نامے میں کہا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں یونین کونسلز (یو سیز) کی تعداد 101 سے بڑھا کر 125 کرنا حکومت کا اختیار ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافے کے فیصلے پر اپنے پہلے ردعمل میں الیکشن کمیشن نے نوٹی فکیشن کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آرٹیکل 140 اے (و) کے مطابق وفاقی حکومت مقامی حکومتوں کا نظام بنانے، سیاسی، انتظامی، مالی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو دینے کی مجاز ہے۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح سے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 6 کی ذیلی دفعہ (ون) کے مطابق اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے اندر یونین کونسلز کی تعداد کا تعین کرنا وفاقی حکومت کا مینڈیٹ اور استحقاق ہے اور اس کے بعد ان حلقوں کی حد بندی کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

حکم نامے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 219(ون) کا فائدہ اٹھاتی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مقامی حکومتوں کے انتخابات نافذ کردہ لوکل گورنمنٹ قوانین کے تحت کرائے گا۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی آئین اور الیکشنز ایکٹ 2017 میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں تاکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات بغیر کسی تاخیر کے بروقت کرائے جا سکیں اور صوبائی حکومتیں کسی بھی بہانے ان کے انعقاد میں تاخیر نہ کریں۔

حکم نامے میں اس نے حکومتوں اور پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ آرٹیکل 140-اے اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 219 میں ضروری ترامیم کریں تاکہ بلدیاتی قوانین میں انتخابات کے انعقاد کا وقت قریب آنے پر ترامیم نہ کی جائیں یا کم از کم اس طرح کی تاخیر سے کی گئی ترامیم کا اطلاق فوری طور پر آئندہ انتخابات پر نہ ہو۔

اسلام آباد میں بلدیاتی اداروں کی مدت 14 فروری 2021 کو ختم ہو گئی تھی اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن 120 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند تھا۔

قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حد بندی کرنے کا فیصلہ آئندہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن بنا دے گا، الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ کیا ماتحت قانون سازی اور نوٹیفکیشن آئینی دفعات کو ختم کر سکتے ہیں۔

اس وقت کی حکومت کے تاخیری حربوں کے بعد الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کیا اور 25 مارچ 2022 کو 50 یونین کونسلز، 300 جنرل وارڈز اور 100 خواتین وارڈز کی حد بندی کے لیے شیڈول جاری کیا، حد بندی کمیٹیوں کو تفویض کردہ کام مکمل کیے جانے کے بعد انتخابی حلقوں کی حتمی فہرست 19 مئی 2022 کو شائع کی گئی۔

اس کے بعد 2 جون کو انتخابات کا شیڈول جاری کیا گیا اور 31 جولائی کو پولنگ کا دن مقرر کیا گیا، اسی دوران وفاقی حکومت نے یونین کونسلوں کی تعداد 50 سے بڑھا کر 101 کر دی جس پر عمل درآمد کے لیے مسلم لیگ(ن) کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ لے گئے۔

الیکشن کمیشن نے رٹ پٹیشن کے زیر التوا ہونے کے دوران یو سیز کی تعداد 50 سے بڑھا کر 101 کر دی اور بینچ کو آگاہ کیا جس پر 22 جون کو معاملہ نمٹا دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر دارالحکومت میں حد بندی کا عمل شروع کیا اور 22 جون کو 101 یوسی، 606 جنرل وارڈز اور 202 خواتین وارڈز کے لیے شیڈول جاری کیا، اس مرتبہ 31 دسمبر کو الیکشن کا دن مقرر کیا گیا، 19 دسمبر کو حکومت نے ایک بار پھر تعداد بڑھاتے ہوئے یونین کونسلز کی تعداد 101 سے 125 کر دی۔

اگلے روز الیکشن کمیشن نے اپنے جاری کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تاہم ایک روز بعد ہی اس نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں