ہتک عزت کے مقدمے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف عمران خان کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2022
شہباز شریف نے پاناما کے معاملے پر رشوت کی پیشکش کا الزام لگانے پر عمران خان کے خلاف 10 ارب ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے — فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان
شہباز شریف نے پاناما کے معاملے پر رشوت کی پیشکش کا الزام لگانے پر عمران خان کے خلاف 10 ارب ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے — فوٹو بشکریہ فیس بُک/ عمران خان

سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں شہباز شریف کے ہتک عزت کے دعوے میں حق دفاع ختم کرنے کے خلاف عمران خان کی اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان کی اپیل پر سماعت کی۔

آج شہباز شریف کی جانب سے ان کے وکیل مصطفیٰ رمدے نے دلائل دیے جب کہ عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔

شہباز شریف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان کے وکیل جواب داخل کرنے کے لیے مختلف سماعتوں پر التوا لیتے رہے، یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے زخمی ہونے کی وجہ سے حلف نامے پر دستخط نہ کرا سکے، جواب داخل کرنے کی ہدایت سے حق دفاع ختم ہونے تک ٹرائل کورٹ میں 21 سماعتیں ہوئیں۔

مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ 21 میں سے 13 سماعتوں پر عمران خان کے وکلا نے التوا لیا، یہ کہہ سکتے تھےکہ فلاں سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے، یہ مختلف سوالات کو اسکینڈلائز کہہ کر جواب دینے سے گریز کر سکتے تھے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اصل میں عمران خان کے پاس اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 23 تاریخوں میں سے 10 ہماری طرف سے تھیں 7 مخالف فریق نے لیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ یہی لکھ کر دے دیتے کہ سوال متعلقہ نہیں ہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے یہی کہا تھا کہ سوال متعلقہ نہیں ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپ نے ایسا نہیں کیا۔

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ یہی لکھ کر کہ دیتے کہ سوالات اسکینڈلائزڈ ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالت آپ کو بار بار جواب کا کہتی رہی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے سوالات کے متعلقہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ ٹرائل کورٹ کو آگاہ کرتے۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے دعوے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف اپیل خارج کردی، تین رکنی بینچ میں سے 2 ججوں نے عمران خان کی اپیل خارج کی اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ درست قرار دے دیا، جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل رواں ماہ ہی لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

قبل ازیں لاہور کی سیشن عدالت نے شہباز شریف کی جانب سے دائر 10 ارب روپے کے ہتک عزت کے مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کی جانب سے اعتراضات کا بروقت جواب نہ دینے پر ان کے دفاع یا درخواست کی مخالفت کا حق ختم کر دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف 10 ارب ہرجانے کا دعوی دائر کر رکھا ہے، عمران خان نے شہباز شریف پر پاناما کے معاملے پر رشوت کی پیشکش کا الزام لگایا تھا۔

2017 میں دائر ہتک عزت کے مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ مدعا علیہ (عمران خان) نے مدعی (شہباز شریف) کے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی بیانات دیے کہ شہباز شریف نے سپریم کورٹ میں زیر التوا پاناما پیپرز کیس واپس لینے کے بدلے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے عمران خان کو 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی۔

شہباز شریف نے استدعا کی کہ عمران خان کے بے بنیاد اور ہتک آمیز بیانات میڈیا کے ذریعے نشر کیے گئے جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور یہ مہم انتہائی ذہنی اذیت اور اضطراب کا باعث بنی۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ مدعی کے حق میں ہتک آمیز مواد کی اشاعت پر 10 ارب روپے ہرجانہ وصول کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جائے۔

چار سال کے بعد پی ٹی آئی سربراہ نے 2021 میں اس مقدمے کا جواب داخل کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے ایک دوست نے انہیں بتایا تھا کہ ان کے اور شریف خاندان کے کسی جاننے والے نے ان سے رابطہ کیا تھا اور انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ عمران خان کو پاناما کیس کی پیروی سے روکنے پر راضی کر لیں تو اربوں روپے دیں گے۔

عمران خان نے مؤقف اپنایا تھا کہ وہ اس بات کو عوامی مفاد میں سامنے لائے اس لیے یہ ہتک عزت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بات سامنے لانے کے دوران انہوں نے خاص طور پر کسی بیان کو شہباز شریف سے منسوب نہیں کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں