کراچی: حکومت میں رہیں گے یا نہیں، فیصلہ کارکنان سے مشاورت کے بعد کریں گے، خالد مقبول صدیقی

01 جنوری 2023
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے انتخابات غیر جانبدارانہ، شفاف اور دباؤ کے بغیر ہوں— فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے انتخابات غیر جانبدارانہ، شفاف اور دباؤ کے بغیر ہوں— فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہم کارکنوں اور تمام بلدیاتی امیداروں سے مشاورت کریں گے، اگر یہی صورتحال قائم رہی تو انتخابات میں حصہ حکومت میں رہ کر کرنا ہے یا حکومت سے علیحدہ ہو کر کرنا ہے، اس کا فیصلہ ایم کیو ایم کے کارکنان اور بلدیاتی امیدوار کریں گے۔

کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے، سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات تاخیر سے ہو رہے ہیں، تاخیر کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہم سب کی خواہش اور مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات غیر جانبدارانہ، شفاف اور دباؤ کے بغیر ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم نے وہ معاہدہ جو پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا تھا، اس میں بڑا اہم نکتہ یہ تھا کہ سندھ کے اندر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں، وہ پاکستان کے آئین و قانون اور خود الیکشن کمیشن کے اصولوں کے برخلاف ہے، یہ بات پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے تسلیم کی تھی۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ 15 جنوری کو صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ اور پُرامن بلدیاتی انتخابات ہوں لیکن اس سے پہلے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے، یہ بات ہمارے مقدمے کے نیتجے میں خود سپریم کورٹ نے ہمیں یہ ڈائریکشن دی کہ آپ کے جو اعتراضات ہیں، اس کو حل ہونا چاہیے، اور آپ جا کر سندھ کی صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن سے رابطہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے گزشتہ 8 سے 10 مہینوں میں پیپلزپارٹی کے ساتھ درجنوں مذاکرات اور اجلاس کرچکے ہیں، انہوں نے ہر بار ہمارے اس مطالبے کو جائز قرار دیا ہے اور اسے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، فوری طور پر کل سے الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد کی حلقہ بندیوں کو درست کرنے کے حوالے سے اقدامات کرے کیونکہ انتخابات سے قبل دھاندلی (پری پول رگنگ) ہو چکی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے نتیجے میں کراچی کی نمائندگی کا اظہار آنے والے انتخابات میں نہیں ہوسکے گا، اگر انہی حلقہ بندیوں کے ذریعے انتخابات کیے جائیں، کیونکہ کراچی کے مستقل باشندوں کی حلقہ بندیاں 80 سے 90 ہزار لوگوں پر مشتمل ہیں اور باقی کراچی کی 25 سے 30 ہزار افراد پر مشتمل ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر کراچی کی ایک یونین کونسل 30 ہزار اور دوسری 90 ہزار پر بنائی گئی ہو تو اس انتخابات کو کس طرح صاف، شفاف اور غیر جانبدار قرار دیا جاسکتا ہے۔

’15 جنوری سے پہلے کراچی و حیدرآباد میں ازسر نو حلقہ بندیاں کی جائیں‘

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 15 جنوری سے پہلے کراچی اور حیدرآباد کی ازسر نو حلقہ بندیاں کی جائیں تاکہ وہ قانون اور اصول جو آئین اور الیکشن کمیشن کے اصول کے مطابق ہے جس میں حلقوں کے درمیان 10 فیصد سے زیادہ فرق کی اجازت نہیں ہے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 15 جنوری سے پہلے حلقہ بندیاں درست کروانے اور انتخابات سے قبل دھاندلی کو ختم کروانے کے لیے سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے اور اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کارکنوں اور تمام بلدیاتی امیداروں سے مشاورت کریں گے، اگر یہی صورتحال قائم رہی تو انتخابات میں حصہ حکومت میں رہ کر کرنا ہے یا حکومت سے علیحدہ ہو کر کرنا ہے، اس کا فیصلہ ایم کیو ایم کے کارکنان اور بلدیاتی امیدوار کریں گے۔

’عوام کو صبر کی تلقین کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے‘

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ یہ ذمہ داری میں وزیر اعظم کی بھی سمجھتا ہوں کہ ہمارے تحفظات دور کرنے کے لیے کہ جو ہم اندیشے اور خدشے ان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے کر رہے تھے، ہمارے مطالبے پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس پر دستخط کیے تھے کہ جو 14 سال سے شہری علاقوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، اس صورتحال میں انتخابات سندھ کے شہری علاقوں اور عوام کے جذبات پر قابو رکھنا اور صبر کی تلقین کرنا ہمارے لیے وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے عدالتوں سے کہتا ہوں کہ اگر سندھ کے شہری علاقوں اور مہاجروں کو آپ سے انصاف نہیں ملے گا تو آپ بتائیں کہ انصاف کی تلاش کے لیے کہاں جائیں؟

’وزیر اعظم بتائیں، جو ضمانت دی تھی اس پر قائم ہیں یا نہیں‘

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان اس حوالے سے آج یا کل تک پوری وضاحت سے بتائیں، اپنے نمائندے بھیجیں، ہمیں بتائیں کہ آپ نے جو ضمانت دی تھی اس پر آپ قائم ہیں یا نہیں تاکہ ہمیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔

انہوں نے پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے لیے تو وقت لے لیتے ہیں کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں 50 سالوں سے آپ کو کبھی نمائندگی نہیں ملی، آپ کو امید انہی جعلی اور دھوکے سے کی ہوئی حلقہ بندیوں سے ہے کہ اس شہر کا مینڈیٹ چرایا جاسکے۔

’جو بھی شامل ہونا چاہتا ہے اس کا خیر مقدم کریں گے‘

ایم کیو ایم کے دھڑوں کے جڑنے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں بڑا خوش ہوں کہ پورا پاکستان بڑا پریشان ہے کہ مہاجروں کے ووٹ تقسیم نہ ہوں، سب لوگوں کی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم جڑ جائے، ہم بھی یہی چاہتے ہیں، ہم 15 جون 2018 سے جلسوں اور پریس کانفرنس کے ذریعے بار بار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام لوگ چاہے وہ ایم کیو ایم میں رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، جو اس شہر کا درد رکھتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کریں، ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہیں تو شامل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس مرحلے پر نازک حالات دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو اپنے سیاسی کیرئیر سے زیادہ سندھ کے شہریوں کے لیے ہوسکتا ہے کہ اپنی ذات سے اوپر ابھر کر ایم کیو ایم کی جدوجہد میں شامل ہونے کے لیے اپنی جماعتوں کے درمیان تبادلہ خیال کیا ہو تو ہم اس طرح کے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہمارا دعوت شمولیت اور شانہ بشانہ چلنے کا عزم آج بھی قائم ہے لیکن سب کو پتا ہے ایم کیو ایم مختلف مزاج کی سیاسی جماعت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شامل ہونا چارہا ہوگا تو ایم کیو ایم کے قانون اور آئین کے نیچے رہتے ہوئے اور ایک پرچم تلے جو بھی اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور شامل ہونا چاہتا ہے ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں