گوادر: رہنما حق دو تحریک مولانا ہدایت الرحمٰن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2023
پولیس نے بتایا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن گوادر میں موجود نہیں ہیں اس لیے انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا—فوٹو: اسکرین شاٹ/ٹوئٹر
پولیس نے بتایا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن گوادر میں موجود نہیں ہیں اس لیے انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا—فوٹو: اسکرین شاٹ/ٹوئٹر

گوادر پولیس نے حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کے خلاف قتل، اقدام قتل، لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے اور دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سینئیر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن گوادر میں موجود نہیں ہیں اس لیے انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

یاد رہے کہ گوادر میں پرتشدد احتجاج کے دوران مظاہرین کی جانب سے فائرنگ کرنے کےدوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔

واقعے سے متعلق پیش رفت میں مقامی انتظامیہ نے ایک مقامی صحافی کو رہا کرلیا تھا۔

مقامی صحافی سمیت دیگر 15 افراد کو 16 مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کی دفعہ 3 کے تحت گرفتار کر کے تربت ڈسٹرکٹ جیل بھیج دیا گیا تھا۔

تاہم کراچی کے اردو اخبار کے لیے کام کرنے والے مقامی صحافی عبیداللہ کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹ اور گوادر کے مقامی صحافیوں نے احتجاج کیا جسے مقامی انتظامیہ نے بعد میں رہا کردیا تاہم دیگر 15 لوگوں کو تاحال رہا نہیں کیا جاسکا ہے۔

اسی دوران کوئٹہ میں چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقيلی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ کسی کو پرتشدد مظاہروں کی آڑ میں امن میں خلل ڈالنے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

گوادر کی صورتحال سے متعلق بلائے گئے اجلاس میں کئی روز کے احتجاج کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے پر صوبائی اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سمیت سیکیورٹی فورسز کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ گوادر کی ترقی اور لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔

اجلاس میں عبدالعزیز عقیلی نے بتایا کہ گوادر کے لوگوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی کیونکہ یہ ان کا حق ہے اور حکومت اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

چیف سیکریٹری نے بتایا کہ شہر میں مظاہرین نے کئی روز تک شہر کو یرغمال بنا کر رکھا تھا جس کی وجہ سے تاجروں اور لوگوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ پُرامن احتجاج لوگوں کا جمہوری حق ہے لیکن کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پُر امن احتجاج میں مداخلت نہیں کرتی لیکن جب یہ احتجاج شدت اختیار کرتے ہیں تو انتظامیہ امن بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے

ایڈیشنل چیف سیکریٹری برائے اجلاس میں قبائلی اور داخلی امور زاہد سلیم، فشریز کے سیکریٹری کاظم خان جتوئی، سیکریٹری کھیل اسحٰق جمالی، سیکریٹری اطلاعات محمد حمزہ شفقت نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مجیب الرحمٰن قمبرانی، مکران ڈیویژن کے کمشنر اور گوادر کے ڈپٹی کمشنر نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔

فشریز کے سیکٹریٹری نے اجلاس میں بتایا کہ محکمہ غیر قانونی طور پر مچھلیوں کے شکار کے خلاف کارروائی کررہا ہے اور بلوچستان کے دریاؤں/پانیوں میں غیر قانونی ماہی گیری میں ملوث متعدد جہازوں کو ضبط کر لیے ہیں۔

چیف سیکریٹری نے حکام کو ہدایت کی کہ گوادر اور مکران کے دیگر علاقوں میں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے ۔

انہوں نے لوڈشیڈنگ کے مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور حکام کو لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی ہدایت کی۔

چیف سیکریٹری نے پولیس کو گوادر میں سیاحوں اور غیر ملکیوں کو فُل پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یاد رہے کہ گوادر میں گزشتہ کئی ماہ سے پُرامن احتجاج جاری تھا جس میں غیر قانونی مچھلی کے شکارکو ختم کرنے سمیت پانی، بجلی اور نوکریاں فراہم کرنے کے مطالبات کیے گئے تھے۔

صوبائی حکومت نے حق دو تحریک کی قیادت میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مظاہرے کے دوران نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد دسمبر کے آخر میں صورتحال انتہائی سنگین ہوگئی تھی۔

پولیس اہلکار کی ہلاکت سے ایک روز قبل پولیس کے مظاہرین سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد حق دو تحریک کے مظاہرین نے پولیس کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

جب صورتحال سنگین ہوگئی تو حکومت نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کردی جس کے تحت شہر میں پانچ سے زائد مجمع پر پابندی عائد کی گئی تھی ، اسی دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور 100 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں