گوادر: ’حق دو تحریک‘ کے مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ، حالات معمول پر نہ آسکے

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2022
دھرنے کے خلاف کارروائی پر گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو مظاہرین نے بند کردیا — فوٹو: اسمٰعیل ساسولی
دھرنے کے خلاف کارروائی پر گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو مظاہرین نے بند کردیا — فوٹو: اسمٰعیل ساسولی

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں تیسرے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے اور حق دو تحریک کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے دوران کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز (28 دسمبر کو) حق دو تحریک کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے دوران فائرنگ سے پولیس کانسٹیبل جاں بحق ہو گیا تھا۔

جس کے بعد محکمہ داخلہ نے پولیس کو حق دو تحریک کے رہنما کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں تاہم مولانا ہدایت اللہ رحمٰن کے خلاف مقدمہ درج ہونا ابھی باقی ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے رابطہ کیا اور حکومت اور حق دو تحریک کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے اور حالات معمول پر لانے کے لیے مدد طلب کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق مولانا ہدایت اللہ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ بلوچستان کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

اس سے قبل (28 دسمبر )کو مظاہرین نے مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ گوادر اور دیگر علاقوں اور مکران کے شہروں سے منسلک ہائی وے پر احتجاج کیا اور ہر قسم کی ٹریفک کے لیے سڑکیں بلاک کردی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے گوادر کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران کے گھر کا محاصرہ بھی کیا تاہم پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور اندھا دھند فائرنگ کی۔

حق دو تحریک نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اور سرحدی پولیس نے گوادر اور پسنی کے علاقے میں احتجاج کے دوران 80 مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔

اس کے علاوہ گوادر کے اضلاع پسنی، اورماڑا، جیوانی، سرباندر، پشیکان کے علاقے میں بھی ہڑتال کی گئی۔

مولانا ہدایت اللہ رحمٰن نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کی شیلنگ، فائرنگ اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 ماہ سے ہمارا احتجاج پُرامن تھا اور ہمیشہ پُرامن ہی رہے گا لیکن پُرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیلنگ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے گوادر اور دیگر شہروں سے گرفتار مظاہرین کی بلاتاخیر فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

اسی دوران بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ دیرپا امن اور لوگوں کی جان اور مال کے تحفظ کے لیے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ 900 سے زائد پولیس اہلکار پورے شہر میں تعینات کردیے گئے ہیں، مظاہرین کو کئی اہم سڑکوں سے منتشر کر دیا گیا جبکہ میرین ڈرائیو اور پورٹ روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں