پی ٹی آئی کا اسمبلی میں خیرمقدم کریں گے لیکن نگراں حکومت کیلئے بات اگست میں ہوگی، رانا ثنااللہ

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2023
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ایوان میں واپسی کے لیے پی ٹی آئی کو استعفے واپس لینے ہوں گے—فائل/فوٹو: ڈان
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ایوان میں واپسی کے لیے پی ٹی آئی کو استعفے واپس لینے ہوں گے—فائل/فوٹو: ڈان

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اسمبلی میں واپسی پر خوش آمدید کہیں گے لیکن نگراں حکومت کے لیے مذاکرات اگست میں آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے نہیں ہوں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا بیان ان میڈیا رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران قومی اسمبلی میں واپسی کا اشارہ دیا ہے۔

رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے اراکین قومی اسمبلی نگران حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت کے لیے ایوان میں واپس جاسکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پی ٹی آئی اسمبلی سے بدستور باہر رہی تو حکومت اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نگراں حکومت کی تشکیل کریں گے۔

ڈان ڈاٹ کام کو عمران خان کے بیان کے حوالے سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ سے عمران خان کے بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بالکل ہم اسمبلی میں ان کو خوش آمدید کہیں گے یہاں تک کہ جب وہ جارہے تھے تو ہم نے کہا تھا یہ غیرجمہوری فیصلہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو اپنے استعفے واپس لینے ہوں گے اور پھر واپس آکر اسمبلی میں بیٹھنا ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو پھر اسپیکر کو ایک درخواست دینی پڑے گی کہ انہیں قائد حزب اختلاف مقرر کیا جائے۔

رانا ثنااللہ نے وفاقی حکومت کے مؤقف کو دہرایا کہ ملک میں عام انتخابات 5 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسمبلیوں کی مدت جب 16 اگست 2023 کو مکمل ہوگی تو پھر وہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مشاورت کا حصہ ہوں گے اور پھر نگراں حکومت کا فیصلہ کیا جائے گا‘۔

قومی اسمبلی میں واپسی وزیراعظم کو باہر کرنے کے لیے ہوگی، فواد چوہدری

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں واپسی کے حوالے سے عمران خان کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں واپسی کا فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کو عہدے سے باہر کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

قومی اسمبلی میں واپسی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے حتمی فیصلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کا مقصد شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سے الگ کرنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ قانونی مشورہ لیا جا رہا ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرنے کی صورت میں اسمبلی میں جائے بغیر پارٹی کے اراکین اسمبلی کو کیسے پارٹی کی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے پابند کیا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی ہدایت پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا اور اس وقت ایوان میں راجا ریاض قائد حزب اختلاف ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ’ہم قانونی مشاورت کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں واپسی کا فیصلہ کریں گے‘۔

پی ٹی آئی رہنما نے تسلیم کیا کہ قومی اسمبلی میں واپسی پر غور کرنے کی ایک وجہ نگراں حکومت کی تشکیل پر بات چیت کرنا بھی ہے لیکن ’یہ پہلی ترجیح نہیں ہے کیونکہ بالآخر یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے اور ممکنہ طور پر وہ یہ تمام فیصلے مسلم لیگ (ن) کی خواہش کے مطابق کریں گے‘۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا کیونکہ عدم اعتماد کی وجہ سے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور ان کی جگہ شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے 28 جولائی 2022 کو پی ٹی آئی کے 11 مخصوص اراکین کا استعفیٰ منظور کرلیا تھا جبکہ دیگر کو فرداً فرداً پیش ہو کر تصدیق کرنے کے کہا تھا۔

پی ٹی آئی نے بعد ازاں دسمبر میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسپیکر راجا پرویز اشرف کو استعفے قبول کرنے کے لیے خط لکھا تھا اور ایک وفد نے ملاقات بھی کی تھی۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف نے 29 دسمبر 2022 کو پی ٹی آئی کے وفد سے کہا تھا کہ استعفوں کی تصدیق کے لیے اراکین کو انفرادی طور پر بلایا جائے گا جبکہ پی ٹی آئی کا اصرار تھا کہ وہ ایک ساتھ استعفے قبول کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں