حکومت کی مخالفت کے باوجود اسٹیٹ بینک بل سینیٹ سے منظور

17 جنوری 2023
شوکت ترین نے کہا کہ ملک کے صرف 9 شہروں میں 85 فیصد قرضے فراہم کیے جاتے ہیں—فوٹو:یوٹیوب اسکرین گریب
شوکت ترین نے کہا کہ ملک کے صرف 9 شہروں میں 85 فیصد قرضے فراہم کیے جاتے ہیں—فوٹو:یوٹیوب اسکرین گریب

سینیٹ اجلاس میں حکومت کو اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا جب چھوٹے صوبوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کو بڑھانے کا بل اس کی مخالفت کے باوجود ایوان سے منظور کرلیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت تکنیکی بنیادوں پر کی جا رہی تھی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل کو زیر غور لانے کی تحریک کو 20 کے مقابلے میں 26 ارکان کی اکثریت سے منظور کیا گیا جب کہ 2 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

ایوان میں بل کو پیش کرنے والے سینیٹر محسن عزیز نے بل کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ کمرشل بینکوں کے مجموعی قرضے کے پورٹ فولیو میں 2 صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا حصہ صرف 1.35 فیصد ہے جب کہ باقی 98.65 فیصد قرضہ پنجاب اور سندھ کو دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال صنعت کاروں کو اپنی صنعتیں دوسرے صوبوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین نے کہا کہ وسائل کی تقسیم کا مسئلہ صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا نہیں ہے بلکہ جنوبی پنجاب، شمالی سندھ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ملک کے صرف 9 شہروں میں 85 فیصد قرضے فراہم کیے جاتے ہیں اور ان مجموعی قرضوں میں کارپوریٹ سیکٹر کا قرضہ 75 فیصد بنتا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے تسلیم کیا کہ اس فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے، بل کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی سازی سے متعلق معاملہ ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، اتفاق رائے پر مبنی پالیسی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ ہم بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں۔

عائشہ غوث پاشا کی رائے تھی کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔

تاہم قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے وزیر مملکت کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کی علامت یہ ایوان صوبوں کے حقوق سے متعلق معاملات کو اٹھانے کا سب سے بڑا اور مناسب ترین فورم ہے، ایوان بالا کے دونوں اطراف کے دیگر سینیٹرز نے بل کی حمایت کی جس کے بعد اس کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا اور منظور کر لیا گیا۔

اراکین کی گرفتاری سے متعلق بل بھی سینیٹ نے متفقہ طور پر بھی منظور کیا، یہ بل قانون سازوں کو مخصوص مدت کے لیے گرفتار کرنے اور حراست میں لینے سے روکنے سے متعلق تھا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کیے گئے اراکین پارلیمنٹ کے استحقاق سے متعلق بل میں کہا گیا ہے کہ اجلاس بلانے کے بعد کسی رکن کو کسی بھی قانون کے تحت حراست میں نہیں لیا جائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جب کسی رکن کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی جاتی ہے یا ریفرنس دائر کیا جاتا ہے تو چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کو مطلع کیا جائے گا اور ایف آئی آر یا ریفرنس کی کاپی اندراج یا دائر کرنے کے 24 گھنٹے کے اندر انہیں فراہم کی جائے گی۔

اس بل میں کہا گیا ہے کہ جب کسی رکن کو گرفتار کیا جانا ضروری ہو یا عدالت کی طرف سے اسے قید کی سزا سنائی جاتی ہے یا کسی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اسے حراست میں لیا جاتا ہے تو جج، مجسٹریٹ یا ایگزیکٹو اتھارٹی فوری طور پر چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کو گرفتاری کی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں مطلع کرے۔

بل میں چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کے احاطے سے کسی رکن کی گرفتاری پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

غیر ملکی دوروں کے اخراجات

سینیٹ کی کارروائی کے دوران اپوزیشن کی جانب سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے غیر ملکی دوروں پر تنقید کی گئی جب کہ حکومت کی جانب سے اس کا فوری بھرپور جواب دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے وزیراعظم، ان کی کابینہ کے ارکان اور دیگر حکام کے بیرون ملک دوروں پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات دینے کا مطالبہ کیا، انہوں نے ’کوپ 27 کانفرنس‘ پر خرچ کیے گئے عوامی پیسے کی تفصیلات کے ساتھ جانے والے وفد کی تعداد سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ عالمی برادری نے شرم الشیخ میں کوپ27 اور جنیوا میں انٹرنیشنل کلائیمیٹ ریزیلئنٹ پاکستان کانفرنس کے دوران پاکستان کی سفارتی قیادت اور کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وزیر خارجہ اپنے دوروں کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کر رہا ہے، انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف عالمی سطح پر پاکستان کی کامیابی قبول نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی وفود پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر پیش کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت نے پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے نمائندوں کو مدعو کیا جنہوں نے سیاسی پولرائزیشن کے دوران پاکستان کی جانب سے وفاقی اتحاد کا واضح پیغام دیا۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم نے اپنی پالیسیوں میں متعصبانہ سیاست کے بجائے عوامی مفاد کو پیش نظر رکھنے اور ترجیح دینے کا فیصلہ کیا، ایسے وقت میں جب ہم ملک کی تعمیر نو میں اپنی تمام تر کوششیں لگا رہے ہیں، عمران خان نفرت اور تفریق کا جھوٹا بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں اور انہیں سوا 3 کروڑ سیلاب زدگان کی کوئی فکر نہیں۔

قراردادیں

اس کے علاوہ سینیٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں میں میگا ایجوکیشنل سٹیز کے قیام کے لیے پروگرام شروع کرنے، پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک کے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک، سنت اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنے کی سفارش، تمام بڑے شہروں میں اسٹیڈیم کے احاطے میں عالمی معیار کے ہوٹلز کی تعمیر جہاں سے کھلاڑی اور ٹیم آفیشلز کے لیے اسٹیڈیم تک پیدل جاسکیں، سے متعلق قراردادیں منظور کیں۔

اے پی پی نے مزید کہا کہ سینیٹ سے منظور کی گئی ایک اور قرارداد میں سفارش کی گئی کہ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت فراہم کی جانے والی ٹیکس چھوٹ کی سہولت کی ترغیب 2023 سے 2033 تک 10 سال کے لیے بڑھا دی جائے تاکہ کاروباری سرگرمیوں کی بحالی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ضم شدہ اضلاع میں ترقی کا آغاز ہو سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں