روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث معیشت سے متعلق خدشات میں اضافہ

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2023
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ ڈالر پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ ڈالر پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

روپے کی قدر میں مارکیٹ کی توقعات سے بھی زیادہ تیز رفتار گراوٹ اور کمی کے باعث ملک کی معاشی صورتحال سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے ہفتوں کے دوران ضروری اشیا کے درآمدی بل کی ادائیگی کی صلاحیت پر شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شرح تبادلہ بنیادی طور پر مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی کی وجہ سے سخت متاثر ہوئی جو کہ سکڑ کر تقریباً 9 سال کی کم ترین سطح 4 ارب 34 کروڑ ڈالر پر آگئے ہیں۔

اسٹاک مارکیٹ بھی سیاسی بے یقینی اور تشویش ناک معاشی اشاریوں کے باعث شدید گراوٹ اور مندی کا شکار ہے اور منگل کے روز یہ 3.5 فیصد کمی کے بعد 38 ہزار 342 پوائنٹس پر بند ہوئی۔

کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے روپے کو کنٹرول کیے جانے کے باوجود اس کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، منگل کو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 228 روپے 66 پیسے پر بند ہوا۔

ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں آخری بار یکم دسمبر کو اضافہ ہوا تھا جب یہ 0.12 فیصد بڑھ کر 223 روپے 69 پسے پر بند ہئی تھی، روپے کی گراوٹ میں حالیہ دنوں میں تیزی آگئی اور گزشتہ 6 سیشنز کے دوران اس کی قدر میں ایک روپے 25 پیسے تک کمی دیکھی گئی۔

ڈالر کی قلت کے باعث انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں اس کے ریٹ میں بہت زیادہ فرق پیدا ہوگیا جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے، اس نمایاں فرق کے باعث قانونی بینکنگ چینل سے آنے والی ترسیلات زر کو گرے مارکیٹ کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

اس صورت حال پر ایک سینئر بینکر کا کہنا تھا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور کاروباری اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

بینکرز سمجھتے ہیں کہ ملک میں جلد ہی بنیادی اشیائے خورونوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی بھی قلت محسوس ہوگی۔

انٹربینک مارکیٹ میں کرنسی امور کے ماہر عاطف احمد نے کہا کہ جون کے مہینے میں چین نے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے، اس کے بعد سے ڈالر کا کوئی خاص انفلو نہیں ہوا، ہم کم درآمدات اور ماہانہ اوسطاً 2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے باوجود آؤٹ فلو اور ڈالر کا ملک سے اخراج ہی دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 4 ارب 34 کروڑ ڈالر زر مبادلہ کے ذخائر ملک کے لیے سنگین خطرہ ہیں جب کہ موجودہ سیاسی بے یقینی نے ملک کی کسی دوسرے ملک اور ڈونر ایجنسی سے تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ نے برآمد کنندگان کو درآمدات کی اجازت دینے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن کرنسی ماہرین اب بھی بہتر فیصلوں کے منتظر ہیں، ایک کرنسی ڈیلر نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کو ڈیفالٹ اور سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے فوری مدد کی ضرورت ہے۔

تاہم برآمد کنندگان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بہت دیر ہو چکی ہے جب کہ وہ عالمی منڈی میں خاص طور پر ٹیکسٹائل میں نمایاں حصہ کھو چکے ہیں جہاں بنگلہ دیش نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران اپنی برتری کو بڑھایا ہے۔

مقامی ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ اینڈ ایکسپورٹنگ یونٹ کے ڈائریکٹر شکیل کاکوی کا کہنا ہے کہ ہمیں بیرون ملک سے کچھ آرڈرز موصول ہوئے لیکن آرڈرز کی کمی اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہم پہلے ہی کئی فیکٹریاں بند کرچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ تمام برآمد کنندگان کو آرڈر موصول نہیں ہو رہے۔

کچھ ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ڈالر کی قلت آئندہ دو سے تین ماہ میں پیٹرول اور ڈیزل کی راشننگ کا سبب بن سکتی ہے جس سے تجارت، صنعت اور زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچے گا جب کہ فصل کے کٹائی کے سیزن میں ڈیزل کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ ڈالر پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں، ہم صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کی بحالی اور قرض رول اوور کی شکل میں چین کی مدد کے بھی منتظر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں