کراچی: نابالغ لڑکی کے ریپ میں ملوث چاروں ملزمان کو عمر قید کی سزا

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2023
جج نے تمام چاروں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
جج نے تمام چاروں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2021 میں آٹھویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے جرم میں چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

عدالت کی جانب سے ملزمان مزمل، سبحان، عدیل اور آریز کو میمن گوٹھ تھانے کی حدود میں 12 جنوری 2021 کو 12 سالہ نابالغ لڑکی کے ساتھ ریپ کا مرتکب قرار دیا گیا۔

سینٹرل جیل کراچی میں قائم جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 6 کے جج نے دونوں طرف سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

جج نے فیصلے میں بتایا کہ استغاثہ نے ملزمان کے خلاف ریپ کے الزام کو کامیابی سے ثابت کیا ہے۔

جج نے تمام چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔

متاثرہ لڑکی کو دھمکانے اور اپنے جرم کو چھپانے پر ملزمان کو مزید پانچ سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران متاثرہ لڑکی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ملزم عدیل کے ساتھ رابطے میں تھی، جس نے اسے ان کے مشترکہ دوست سبحان سے رابطہ کرنے کو کہا تھا۔

اس نے مزید بتایا تھا کہ رابطہ کرنے پر سبحان نے اسے 12 جنوری 2021 کو اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے کہا۔

متاثرہ لڑکی نے گواہی دی کہ جب وہ سبحان کے گھر گئی تو اس نے کہا کہ اس کی والدہ آرہی ہیں تاہم اس کے برعکس تین دیگر ملزمان مزمل، عدیل اور عریز وہاں آگئے۔

اس نے بتایا کہ عدیل نے چاقو نکالا جبکہ دیگر ملزمان نے اسے بستر پر دھکا دیا اور پھر اجتماعی ریپ کرنے کے بعد اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

متاثرہ لڑکی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمان نے اس ریپ کی فلم بھی بنائی، ڈر کی وجہ سے وہ خاموش رہی لیکن کچھ دنوں بعد ملزمان نے وہ ویڈیوز واٹس ایپ پر مختلف گروپس میں شیئر کر دیں۔

اس نے کہا کہ جب اس نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت پولیس کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تو ملزم کے اہل خانہ نے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ اپنا بیان بدل دے اور ان کے بیٹوں کو اس مقدمے میں نہ پھنسائیں۔

متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے شناختی پریڈ کے دوران ریپ کرنے والوں کو شناخت کر لیا اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا۔

شکایت گزار کے وکیل ایڈووکیٹ محمد خان شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات میں جہاں ریپ کا شکار نابالغ ہو، اس کا بیان خود سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ملزمان کو مجرم قرار دینے کے لیے کافی ثبوت ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ثبوتوں بشمول میڈیکو لیگل ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ملزم کے ویڈیو اور موبائل فون کا فرانزک تجزیہ انہیں اس جرم سے مکمل طور پر جوڑ دیتا ہے۔

وکیل نے عدالت سے ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دینے کی استدعا کی۔

ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ریکارڈ کیے گئے اپنے بیانات میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے بے گناہی کا دعویٰ کیا تھا، انہوں نے جج سے استدعا کی کہ استغاثہ کی طرف سے ان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات سے انہیں بری کیا جائے۔

تعزیرات پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376-2، 506-بی اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ کی دفعہ 7 کے ساتھ پڑھا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں