ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کے فکس ریٹ (کیپ) کو ختم کرنے کے بعد روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 0.21 فیصد کمی ہوئی اور ڈالر کی قیمت بڑھ کر 230 روپے 89 پیسے ہوگئی جبکہ گزشتہ روز (24 جنوری) ڈالر کی قیمت 230 روپے 40 پیسے تھی۔

یکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ میں دن کے اختتام 4:35 بجے ڈالر کی قیمت 243 روپے تھی اور روپیہ گزشتہ روز کی کے 240.75 کے مقابلے میں 0.93 فیصد گر گیا۔

اس سے قبل چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان کے دفتر سے جاری نوٹس کے مطابق 11 بجے کے قریب اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی تجارت 243 روپے پر ہو رہی ہے، جو گزشتہ روز کے مقابلے میں 0.93 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ اسی دوران انٹربینک میں ڈالر 231.5 روپے پر ٹریڈ ہو رہا تھا۔

دوسری جانب، ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں روپے-ڈالر کی قدر کا فیصلہ ایکسچینج کمپنیوں کی ایک کمیٹی آج اجلاس میں کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ڈپٹی گورنر عنایت حسین کے ساتھ ملاقات کامیاب رہی، اسٹیٹ بینک نے کیپ کو ختم کرنے سمیت ہمارے تمام مطالبات منظور کر لیے ہیں۔

ظفر پراچا نے بتایا کہ مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو مزید ہدایات دی ہیں کہ وہ ایکسچینج کمپنیز کو ڈالرز فراہم کریں، انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر-روپے کی شرح تبادلہ کو صحیح قدر پر لایا جائے گا تاکہ گرے مارکیٹ کا خاتمہ ہو جائے۔

واضح رہے کہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 60 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں، تاہم اب بھی صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ ان ذخائر سے صرف 3 ہفتوں کی درآمدات ہوسکتی ہیں۔

ڈالرز کی قلت کے سبب انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس سے معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ ترسیلات زر قانونی بینکنگ کے بجائے گرے مارکیٹ سے آ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (25 جنوری) ایکسچینج کمپنیوں نے ملک میں ڈالر کی کمی، بڑھتے ہوئے ریٹ اور موجودہ غیریقینی صورت حال کے سبب ڈالر کا فکس ریٹ (کیپ) ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ملک بوستان نے ویڈیو پیغام میں بتایا تھا کہ اجلاس میں تمام اراکین نے ایسوسی ایشن سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم نے ملک کے مفاد میں ڈالر کے نرخ کو ایک جگہ فکس کیا تھا تو اس کو ختم کیا جائے کیونکہ ہمیں لگا تھا کہ ہمارے اس فیصلے سے شاید ڈالر کا ریٹ نہیں بڑھے گا لیکن یہ اقدام منفی ثابت ہوا اور الٹا ڈالر کا ریٹ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے ڈالر مارکیٹ میں دستیاب بھی نہیں ہے اور بلیک ماریٹ وجود میں آ گئی ہے کیونکہ ڈالر نہیں ملنے کے سبب ہر طرف افراتفری تھی اور جن لوگوں کو ضرورت تھی وہ بلیک مارکیٹ میں جا رہے تھے، اس کے نتیجے میں حکومت، ایکسچینج کمپنیوں اور اسٹیٹ بینک کی بہت بدنامی ہو رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے اور کل ہماری صبح ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ ملاقات ہے، کل سے اس کو ہٹا دیں گے کیونکہ جب لوگوں کو ڈالر ملنا شروع ہو جائے گا تو بلیک مارکیٹ ختم ہو جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں