آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع

اپ ڈیٹ 14 فروری 2023
سفارتی ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا—فائل فوٹو: اے ایف پی
سفارتی ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا—فائل فوٹو: اے ایف پی

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان نے پیر کے روز اپنی بات چیت کا دوبارہ آغاز کردیا، اسلام آباد کو امید ہے کہ یہ ورچوئل بات چیت کے نتیجے میں معاہدہ ہوجائے گا جس سے ملک کی بیمار معیشت پر مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کیا جاسکے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے رائٹرز کو بتایا کہ ’مذاکرات کے دورانیے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی لیکن ہم اسے جلد از جلد مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ پاکستان نے 31 جنوری سے 9 فروری تک اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ 10 روز کی تفصیلی بات چیت کی تھی لیکن وہ معاہدے تک نہیں پہنچ سکی تھی۔

تاہم آئی ایم ایف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں فریقین نے رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا ہے اور اسلام آباد میں زیر بحث پالیسیوں کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے آنے والے دنوں میں ورچوئل مذاکرات جاری رہیں گے۔

اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت سال 2019 میں پاکستان کے ساتھ ہوئے آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) انتظامات کے نویں جائزے پر مرکوز تھی۔

آئی ایم ایف نے میکرو اکنامک استحکام کو محفوظ بنانے کی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے وزیراعظم کے عزم کو سراہا اور بات کو چیت کو تعمیری قرار دیا تھا۔

آئی ایم ایف نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ مقامی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پالیسی اقدامات پر ’خاصی پیش رفت‘ ہوئی ہے۔

فنڈ نے ان ترجیحات کا اجاگر کیا جس پر اسلام آباد میں بات چیت ہوئی تھی جس میں ریونیو بڑھانا، غیر ٹارگٹڈ سبسڈیز کم کرنا اور سماجی تحفظ کے پروگرام میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کردے۔

ذرائع نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت کے بعد آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان میں بھی اس معاملے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف نے بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے لیے باضابطہ شراکت داروں کی جانب سے پُرعزم مالی امداد کے ساتھ ان پالیسیز کا بروقت اور فیصلہ کن نفاذ اہم ہے تا کہ میکرو اکنامک استحکام کامیابی سے واپس حاصل کیا جاسکے اور مستحکم ترقی کو آگے بڑھایا جائے۔

بیان میں باضابطہ شراکت دار بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو کہا گیا ہے مثلاً آئی ایم ایف کے علاوہ پاکستان کے باہمی شراکت دار یعنی چین، سعودی عرب جو ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف پیکج کے بغیر پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔

سفارتی ذرائع نے کہا کہ ’آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا‘۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا پاکستان قرض دہندہ ادارے کے ساتھ معاہدہ کرنے کے قریب ہے؟ ایک سینیئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ایسا نہیں کہ میں اس سے واقف ہوں، اس مرتبہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔

فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہمارے پاس آئی ایم ایف کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنی ہوگی‘۔

انہوں نے یہ تاثر مٹانے کی بھی تجویز دی کہ سیاست اور سیاسی تحفظات معیشت پر غالب آرہے ہیں کیوں کہ پاکستان داؤ پر لگا ہے’۔

انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’کتنی ستم ظریفی ہے کہ 22 کروڑ 40 لاکھ کی آبادی والا جوہری صلاحیت کا حامل ملک بے کار میں 3 ماہ کی تاخیر کر کے آئی ایم ایف کے جونیئر افسران کی رضامندی کا منتظر ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں