اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت سے عمران خان کی ضمانت خارج

اپ ڈیٹ 15 فروری 2023
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیچ
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیچ

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں عدم پیشی پر عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت خارج کردی جبکہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔

عدالت نے عمران خان کو آج ہی پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے وکیل کی مشاورت کے لیے ڈھائی بجے تک سماعت میں وقفہ کردیا تھا، وقفے کے بعد مہلت کا وقت پورا ہونے پر عدالت نے عدم پیشی پر عمران خان کی ضمانت خارج کردی۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ حفاظتی ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے دلائل دیے کہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت دائر کی ہے، میڈیکل رپورٹ کے مطابق چلنا پھرنا مشکل ہے۔

سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عمران خان متعلقہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں ، میڈیکل گراؤنڈ پر حفاظتی ضمانت دے دیں، میڈیکل کے مطابق تین ہفتے تک عمران خان چل پھر نہیں سکتے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ حفاظتی ضمانت کا قانون کیا ہے۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ میرے فیصلے ہیں کہ ملک سے باہر ہونے پر بھی حفاظتی ضمانت ہو جاتی ہے، اگر زیادہ مسئلہ ہے تو ایمبولینس میں آجائیں کیونکہ حفاظتی ضمانت میں ملزم کی پیشی ضروری ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، اصولی طور پر مجھے یہ درخواست خارج کر دینا چاہیے لیکن میں رعایت دے رہا ہوں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو 8 بجے تک لے آئیں، میں دیر تک کام کرتا ہوں۔

تاہم عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کی۔

عمران خان کے وکیل جسٹس طارق سلیم شیخ کے روبرو پیش ہوئے جہاں تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری بھی عدالت میں موجود تھے۔

فواد چوہدری نے عدالتی اسٹاف کو عمران خان کی پیش نہ ہونے کی دو وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل معاملات کی وجہ سے ڈاکٹرز نے عمران خان کو آرام کا مشورہ دیا ہوا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کا بھی معاملہ ہے کیونکہ ان پر پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے، باقی جو جج صاحب کا حکم ہوگا وہ سر آنکھوں پر ہوگا۔

فواد چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اس پر جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ میں آپ کو نہیں سن سکتا کیونکہ آپ یونیفارم میں نہیں ہیں۔

جسٹس طارق سلیم نے ریمارکس دیے کہ حفاظتی ضمانت کا پہلا اصول ملزم کی پیشی ہے اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرا دیتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو طریقہ ہے اس پر عمل کریں،آپ اگر درخواست گزار کو پیش کرنے کی ضمانت دیں تو صبح کے لیے ملتوی کر دیں گے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ اسٹریچر پر لائیں یا ایمبولینس میں لیکن پیش کیے بغیر ضمانت نہیں ہو گی۔

اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ صبح دلائل کے لیے رکھ لیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا، صبح پیش ہونے کی یقین دہانی ہو گی تو ملتوی کریں گے۔

وکلا کی جانب سے مشاورت کے لیے وقت دینے کی استدعا کی گئی جس پر سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی۔

کچھ دیر بعد سماعت دوبارہ شروع کی گئی اور جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان عدالت میں پیش کیوں نہیں ہو سکتے اس پر وکیل نے دلائل دیے کہ ڈاکٹروں نے انہیں چلنے سے منع کیا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عمران خان کو چلنے کے لیے کس نے کہا اس پر وکیل نے کہا کہ عمران خان کے سیکورٹی کے مسائل ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے وکیل کی اس بات پر ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی میں دلوا دیتا ہوں۔ تاہم وکیل نے کہا کہ ہماری رحم کی اپیل ہے۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے سماعت صبح کے لیے ملتوی کر دی۔

قبل ازیں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کیس میں عمران خان کی طبی بنیادوں پر دائر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے عمران خان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو ڈیڑھ بجے تک عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تاہم عمران خان ڈیڑھ بجے تک عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر آگئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا پہلے والی پوزیشن ہے؟‘، جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ 2، 3 گزارشات بیان کرنا چاہتا ہوں۔

بابر اعوان نے ایف آئی آر پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا گیا، اس عدالت کی نظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا، اسی کیس میں عدالت دیگر ملزمان کی ضمانت منظور کر چکی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ اس کیس سے دہشت گردی کی دفعات حذف کی جائیں۔

جج راجا جواد عباس حسن نے کہا کہ یہ ضمانت کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے، اس پر بابر اعوان نے کہا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر بھی کوئی ایما ہوتا ہے؟ ایڈیشنل سیشن جج نے 27 فروری تک عبوری ضمانت دے رکھی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ آپ بھی 27 فروری تک عبوری ضمانت میں توسیع دے دیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کوشش کی مگر سفر نہیں کر سکے، عمران خان نہ کبھی ملک اور نہ ہی عدالت سے بھاگے۔

بابر اعوان نے کہا کہ عدالت ایک آخری موقع دے کر سمن جاری کر دے، میں 10 ہزار کے مچلکے جمع کرانے کو تیار ہوں۔

بابر اعوان کی جانب سے عمران خان سے مشاورت کے لیے وقت مانگنے پر عدالت نے ڈھائی بجے تک سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈھائی بجے تک بتادیں جو بھی کرنا ہے‘۔

بعد ازاں ڈھائی بجنے پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے فیصلہ سناتے ہوئے عدم پیشی پر عمران خان کی عبوری ضمانت خارج کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے عمران خان کی طبی بنیادوں پر دائر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے آج طلب کیا تھا۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر عمران خان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان پیش ہوئے تو ٹھیک نہیں تو ضمانت قبل از گرفتاری پر آرڈر دے دیں گے، بعد ازاں کیس کی سماعت 15 فروری (آج) تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ عمران خان کےخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں