پرویز الہٰی کی مقدمات کے حوالے سے مبینہ آڈیو لیک، چیف جسٹس معاملے کا نوٹس لیں، وزیرداخلہ

اپ ڈیٹ 17 فروری 2023
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے اور صرف وقت دیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے اور صرف وقت دیا جارہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے مقدمات کے حوالے سے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی مبینہ آڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز الہٰی ادارے پر الزام عائد کر رہے ہیں اس لیے چیف جسٹس سے ہی درخواست کی جاسکتی ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے چوہدری پرویز الہٰی کی مبینہ آڈیو لیک پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل نواز شریف کے بارے میں بھی آڈیو لیک ہوئی تھی کہ کس طرح انہیں سزا دلائی گئی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ نواز شریف سے متعلق آڈیو لیک میں جج ارشد ملک نے ایک ایسی حقیقت بیان کی تھی کہ کس طرح سے ان سے فیصلہ کروایا گیا اور سزا دلوائی گئی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ سابق جج ارشد ملک نے باقاعدہ نام لے کر بتایا تھا کہ کون انہیں بلاکر کیا کیا کہتے رہے اور انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کا بھی باقاعدہ ذکر کیا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے والی آڈیو لیک پر کوئی کارروائی نہیں ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ پرویز الہٰی کس دیدہ دلیری سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مینیج کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس پاکستان سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور میں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے اور وزارت قانون سے رائے لے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو ٹاسک دیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف بادی النظر میں مقدمہ بنتا ہے، پہلے آڈیو کی فارنزک کی جائے اور پھر انہیں گرفتار کرکے معاملے کی تفتیش کا آغاز کیا جائے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ فارنزک رپورٹ میں آڈیو کے درست ہونے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش کی جائے اور اگر یہ معاملہ اس سے آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ چیف جسٹس یا جوڈیشل کمیٹی کے پاس جائے تاکہ عدلیہ کی عزت اور احترام کا تحفظ کیا جائے۔

مبینہ آڈیو لیک

وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی اپنے وکلا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی مبینہ آڈیا جاری کردی۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش تین آڈیو ٹیپس میں بظاہر چوہدری پرویز الہٰی مختلف افراد سے گفتگو کر رہے ہیں، جن میں سے ایک کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک جج ہیں۔

پہلی آڈیو میں مبینہ طور پر پرویز الہٰی کسی جوجا صاحب سے بات کر رہے ہیں اور ان سے پنجابی زبان میں مخاطب ہیں اور جج کا نام لے کر کہہ رہے ہیں کہ ’جوجا صاحب، ۔۔۔۔۔کے پاس لگوانا، محمد خان کا کیس‘۔

دوسری طرف سے پرویز الہیٰ کو جواب دیا جا رہا ہے کہ ’اچھا چلو، آج وہ اسلام آباد چلا جائے گا، وہ کہہ رہے تھے ہم ان کو اسلام آباد بھیج دیں گے، پھر اس کے بعد جو پروسیس ہوتا ہے اس پر کوشش کریں گے‘۔

پرویز الہٰی مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ ’کرو ناں جی، کوشش کرو، دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ جی کوشش کروں گا سر‘۔

دوسری طرف سے بات کرنے والے آدمی ایک دفعہ پھر جج کا نام لے کر وضاحت کر رہے ہیں اور بظاہر پرویز الہیٰ جواب دے رہیں کہ ’ہاں‘ تو دوسرا آدمی کہتا ہے ’بس ٹھیک ہے جی، پرویز الہٰی کہتا ہے بڑا دبنگ ہے‘ جبکہ جوجا کہتا ہے کہ ’آنیں ہے، جانتا ہوں‘۔

پرویز الہٰی دوسری مبینہ آڈیو میں کسی وکیل سے بات کر رہے ہیں اور جج کا نام لے کر کہہ رہے ہیں کہ ’—کے پاس لگوانا ہے‘، وکیل پوچھ رہے ہیں کہ ’فائل کردیا انہوں نے‘ تو پرویز الہٰی مبینہ طور پر کہ رہے ہیں کہ ’فائل کردیا ہے جوجا صاحب سے پوچھ لیں وہ کر رہا ہے‘، جس پر دوسرے طرف سے آواز آتی ہے کہ ’میں جوجا صاحب سے معلوم کرتا ہوں، کل بات کی تھی تو کل تک نہیں ہوا تھا تو میں چیک کرلیتا ہوں‘۔

آڈیو میں مبینہ طور پر پرویز الہٰی کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’وہ کام ٹھیک ہوجائے گا آپ ذرا کرلینا‘، وکیل کہتے ہیں کہ ’میں کرلیتا ہوں، بہت بہتر سر‘، جس پر سابق وزیراعلیٰ کہتے ہیں ’کسی کو بتانا نہیں‘۔

وکیل مبینہ طور پر کہتے ہیں کہ ’صحیح ہے میں سمجھ گیا سر، اچھا سر ایک کام اور ہے سر، پرسوں 14 تاریخ کو ڈوگر کا کیس بھی لگا ہوا بینچ میں دوبارہ سر اور اس میں بھی —صاحب ہیں‘۔

پرویز الہٰی کہتے ہیں ’ڈوگر کون سا‘ تو وکیل کہہ رہے ہیں کہ ’غلام محمد ڈوگر، سی سی پی او کا جو کیس کر رہا تھا نا سر، جو سی سی پی او ہوتا تھا وہ بھی لگا ہوا ہے سر پرسوں، کیونکہ دیکھیں آپ ، ان کو ہٹا دیا گیا تھا، ری پلیس کردیا لیکن کیس ابھی بھی ہے سر، پرسوں لگا ہوا ہے 14 کو سر‘، پرویز الہٰی نے وکیل کو جواب دیا کہ ’چلو میں بات کرتا ہوں‘۔

سوشل میڈیا پر تیسری آڈیو ٹیپ بھی گردش کر رہی ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے مبینہ طور پر چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ بات کرنے والے ایک جج ہیں۔

اس آڈیو میں مبینہ جج چوہدری پرویز الہٰی کو سلام کرتے ہیں اور جوابی سلام کے بعد وہ پوچھتے ہیں ’کیا حال ہیں ٹھیک ہو‘ تو بظاہر پرویز الہٰی جواب دیتے ہیں کہ ’مجھے بڑا افسوس ہوا کہ میں خود آرہا ہوں، محمد خان ادھر ہے، تمہارے ساتھ ہیں، میں وہی آرہا ہوں‘۔

دوسری طرف سے مبینہ جج کہتے ہیں کہ ’جی پہنچ گئے، پہنچ گئے‘، پرویز الہٰی کہتے ہیں ’جی جی میں ادھر ہی آرہا ہوں‘ تو دوسری طرف سے مسکراتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ ’چوہدری صاحب کوئی بات نہیں ہے، میں ایسی کہہ رہا ہوں‘۔

مبینہ طور پر چوہدری پرویز الہٰی کہہ رہے ہیں کہ ’نہیں نہیں میں کوئی پروٹوکول کے ساتھ نہیں آرہا بس اکیلے آرہا ہوں‘ دوسری طرف مبینہ جج کہہ رہے ہیں کہ ’نہیں نہیں میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ کا اپنا گھر ہے، کسی بھی وقت آپ آسکتے ہیں‘۔

مبینہ جج کے جواب پر پرویز الہٰی کہتے ہیں کہ ’نہیں، میں ایک سیکنڈ میں سلام کرکے واپس جاؤں گا‘، دوسری طرف سے جواب ملتا ہے کہ ’نہیں بات تو سنیں‘ جبکہ پرویز الہٰی زور دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’میں آگیا نا قریب پہنچ گیاہوں، یار کیا کر رہے ہوں، میں خالی سلام۔۔‘۔

وفاقی وزیر داخلہ نے چوہدری پرویزالہیٰ پر تنقید کرتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان جیسے لوگ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر ملک پر مسلط ہوئے اور ملک کا پٹا بٹھادیا اور اب یہ لوگ عدلیہ کے کندھوں پر سوار ہونا چاہتے ہیں۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے اور صرف وقت دیا جارہا ہے لہٰذا اس پر نہ صرف درخواست خارج ہو بلکہ کارروائی کی جائے۔

انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے اور پھر قمر جاوید باجوہ کے بارے میں جو گفتگو کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن اب یہ لوگ عدلیہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ جس طرح عمران خان اس ملک کے نظام کا مذاق بنا رہے ہیں اس پر کارروائی ہونی چاہیے اور میری ذاتی رائے ہے کہ اب ان کو گرفتار ہونا چاہیے بلکہ حکومت کے سامنے بھی یہ بات رکھنے جارہا ہوں کہ اب مزید اس شخص کو چھوڑنا فری ہینڈ دینے والی بات ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ دوسروں کو ڈیڑھ سال تک جیلوں میں رکھنے والے خود تین دن بھی برداشت نہیں کر سکے اور بدقسمتی یہ ہے کہ عدالت سے رہائی کے بعد پھر وہی بات کرنا شروع کرتے ہیں اور اداروں کی توہین کرتے ہیں لیکن پھر سے انہیں ریلیف دیا جاتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی جو بات کر رہے ہیں وہ ایک ادارے پر الزام عائد کر رہے ہیں اور اس پر نوٹس لینے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو ہی درخواست کی جاسکتی ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم اس کی فارنزک کروائیں گے اور جب تک اس کا معائنہ نہ کیا جائے وہ حتمی نہیں ہوتا لیکن کچھ حد تک تصدیق ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر چوہدری پرویز الہٰی کی آڈیو کا پہلا حصہ سچ ثابت ہوتا ہے اور دوسرا نہیں ہوتا تو پھر یہ واضح ہے کہ مجرمانہ گفتگو کا حصہ ہیں جس میں وہ عدلیہ کے خلاف ایسی گفتگو کر رہا ہے جس سے عدلیہ سے اعتماد اٹھ جائے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔

ایک وکیل کے ساتھ گفتگو کو غلط رنگ دیا گیا، چوہدری پرویز الہٰی

ادھر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہٰی نے کہا ہے کہ آڈیو میں کوئی غلط بات نہیں کی گئی، محمد خان بھٹی کے کیس کے لیے ایک وکیل کے ساتھ گفتگو کو ٹیپ کرکے غلط رنگ دیا گیا ہے۔

چوہدری پرویز الہٰی نے آڈیو لیک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ محمد خان بھٹی 10 دن سے لاپتہ ہے، ان کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے آخر وہ کیس بھی سامنے آنا ہے، اگر کوئی فلاں بندہ انصاف کے لیے اپنے وکلا کے ذریعے عدالتوں کو رجوع کرتا ہے تو اس میں یہ گناہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔

چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت عدلیہ کے ادارے کے خلاف منظم مہم چلا رہی ہے، ہم نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے، عدلیہ اس وقت عوام کی امیدوں کا مرکز ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت انتقام میں اندھی ہوچکی ہے، تمام مخالفین کو جھوٹے کیسز میں جیلوں میں بند کرنا چاہتی ہے، ماڈل ٹاؤن سانحہ کا سرغنہ رانا ثنااللہ بوکھلائے ہوئے اٹھے ہیں اور بولنا شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں ہی کیفر کردار تک پہنچیں گے، اس نااہل حکومت کی تمام غلط کاریوں کی چیزیں سامنے آکر رہیں گی، اللہ کی مدد سے رانا ثنااللہ کے سارے کرتوت باری باری سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان بار کونسل کا انکوائری کا مطالبہ

پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری بیان میں چیف جسٹس عمر عطابندیال سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آڈیو لیکس کے معاملے پر مکمل انکوائری کروائیں۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید اور حسن پاشا نے بیان میں مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر مقدمات کی مخصوص بینچوں میں بھیجنے یا سپریم کورٹ کے معزز جج کے بارےمیں وائرل آڈیو کے معاملے کی مکمل اسکروٹنی اور تفتیش ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسکروٹنی کے بعد آڈیو جعلی ثابت ہوتی ہے تو پھر ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے یہ تیار کیا اور وائرل بھی کی۔

پاکستان بار کونسل نے بیان میں کہا کہ اگر یہ درست ثابت ہوئی تو پھر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں