کراچی پولیس آفس پر حملہ: شہدا کی تعداد 5 ہوگئی، حملے کا مقدمہ درج

کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہوگئی—فوٹو: سندھ پولیس ٹوئٹر
کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہوگئی—فوٹو: سندھ پولیس ٹوئٹر

کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 5 ہوگئی جبکہ حملہ آوروں کے خلاف دہشت گردی کے دفعات کے تحت سی ٹی ڈی تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

ترجمان سندھ پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق کراچی پولیس آفس پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے 50 سالہ پولیس اہلکار عبدالطیف زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔

ترجمان کے مطابق عبدالطیف 2014 میں سابق آرمی کوٹا پر پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور اسپیشل سیکیورٹی یونٹ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

شہید اہلکار کے اہل خانہ میں ان کی اہلیہ، 6 بیٹیوں سمیت ایک بیٹا شامل ہے۔

شہید پولیس اہلکار کی نماز جنازہ پولیس ہیڈ کوارٹر گارڈن میں ادا کی گئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، چیف سیکریٹری سندھ، انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ غلام نبی نے شہید اہلکار کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کی بہادری کی داد دی۔

پولیس ترجمان کے مطابق آئی جی سندھ نے پولیس لائنز اور دیگر اہم تنصیبات پر ’فول پروف سیکیورٹی‘ کو یقینی بنانے کے لیے اجلاس کی صدارت بھی کی۔

ترجمان کے مطابق آئی جی غلام نبی میمن نے پولیس افسران کو ہدایت دی کہ پولیس لائنز اور وہاں قائم مساجد کی سیکیورٹی بڑھائی جائے۔

آئی جی نے ہدایت دی کہ اہم سرکاری دفاتر، عمارتوں اور تربیتی مراکز وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جائے، مزید کہا کہ تمام حفاظتی اقدامات کو مزید بہتر کیا جائے کیونکہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ کے پی او کا واقعہ خون آلود تھا اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، انہوں نے نشاندہی کی کہ تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

انہوں نے پولیس افسران کو شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کی دیکھ بھال اور زخمیوں کو معیاری علاج فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

آئی جی سندھ نے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں داخل زخمیوں کی عیادت بھی کی اور ان کی طبعیت کی صحتیابی سے متعلق دریافت کیا۔

واقعے کی ایف آئی آدر درج

ادھر سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے حملے کی ایف آئی آر درج کردی ہے۔

ڈان ڈاٹ کام کو موصول ایف آئی آر کے مطابق ایس ایچ او صدر خالد حسین کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ نیت)، 120 (مجرمانہ سازش)، 302 (قتل)، 324 (قتل کی کوشش)، 353 (سرکاری ملازم کو ڈیوٹی کی ادائیگی سے روکنے کے لیے حملہ)، 427 اور 460 (قتل کے لیے گھر میں داخل ہونا)کے تحت جبکہ دھماکہ خیز مواد ایکٹ 1908 کے سیکشن 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جمعہ کے روز وہ صدر پولیس اسٹیشن کے آس پاس گشت میں مصروف تھے کہ شام 7 بج کر 15 منٹ پر انہیں الرٹ کیا گیا کہ نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے کراچی پولیس آفس پر حملہ کر دیا ہے جہاں وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ شام 7:20 پر پہنچے۔

ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ دیگر تھانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اضافی نفری طلب کی گئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس آفس پر ہونے والے حملے کے لیے آپریشن کا منصوبہ ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کی نگرانی مین تشکیل دیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ کے پی او چار منزلہ عمارت ہے جس میں دہشت گرد فارئنگ اور دستی بموں کا استعمال کر رہے تھے۔

ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ اعلیٰ افسران کی ہدایت پر منصوبے کے تحت فورسز مختلف پوائنٹس سے عمارت میں داخل ہوئی۔

ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی دوسری منزل سے تیسری منزل تک چلی گئی اور پھر دہشت گردوں نے فائرنگ اور دستی بموں کا استعمال کیا جس سے پولیس اور رینجرز اہلکار زخمی ہوئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بھرپور جوابی فائرنگ کی وجہ سے ایک دہشت گرد نے تیسری منزل کی سیڑھیوں پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ اس کے ساتھی چوتھی منزل پر پہنچ گئے جہاں شدید جھڑپوں میں جوابی فائرنگ سے ایک دہشت گرد مارا گیا۔

ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ آخری دہشت گرد نے چھت پر کھڑے ہو کر سکیورٹی اہلکاروں کو اپنی فائرنگ سے زخمی کر دیا لیکن جلد ہی اسے ہلاک کردیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ عینی شاہدین نے بتایا کہ دہشت گرد اپنی گاڑی صدر پولیس لائن فیملی کوارٹرز کے باہر چھوڑ کر کے پی او چلے گئے اور خاردار تاریں کاٹنے کے بعد اندر داخل ہوئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے علاوہ دو اور افراد بھی تھے جنہوں نے کے پی او کی نشاندہی کی، دہشت گردوں سے گلے ملے اور وہاں سے فرار ہوگئے۔

ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ واقعے کی وجہ سے کے پی او کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کو غیر ملکی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

انہوں نے درخواست کی ہے کہ واقعہ کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کا آغاز کیا جائے۔

واضح رہے کہ 17 فروری (جمعے) کے رزو تین دہشت گردوں نے شاہراہ فیصل پر قائم کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 4 جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے، تاہم آج جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہوگئی ہے۔

حملے کے فوراً بعد پولیس، آرمی اسپیشل سروس گروپ، پاکستان رینجرز سندھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین گھنٹوں تک دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جس کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

مقدمے کے متن کے مطابق دہشت گرد صدر پولیس لائن کے قریب بنے فیملی کوارٹر کی عقبی دیوار پرلگی تار کو کاٹ کر داخل ہوئے، تین دہشت گرد گاڑی میں سوار ہوکر پولیس صدر لائن پہنچے تھے، صدر پولیس لائن کے قریب کھڑی گاڑی کو بھی تحویل میں لے لیاہے، کار سوار دہشت گردوں کے ساتھ مزید 2دہشت گرد موٹرسائیکل پر بھی آئے تھے۔

حملہ آوروں میں سے دو کی شناخت ہو گئی ہے جب کہ ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس پہنی ہوئی تھیں۔

پولیس، رینجرز اور فوج کے اہلکاروں کی جانب سے کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے مشترکہ آپریشن کے دوران خودکش جیکٹس پہننے والے تین دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے رکن بی ڈی ایس انسپکٹر عابد فاروق نے ڈان کو بتایا کہ تینوں دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔

اہلکار کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ 2 دیگر دہشت گردوں کو سیکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا، فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں نے بھی خودکش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں جن میں سے ہر جیکٹ کا وزن تقریباً 7-8 کلوگرام تھا۔

بی ڈی ایس اہلکار نے بتایا کہ دونوں خودکش جیکٹس کو ناکارہ بنا دیا گیا، اس دوران 5 روسی ساختہ ہینڈ گرنیڈ کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا جب کہ جائے وقوع ے پھٹنے والے/استعمال شدہ دستی بموں کے تین خول بھی قبضے میں لیے گئے، اس کے علاوہ حملے کے مقام سے سب مشین گن اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا گیا۔

ہفتے کے روز ڈان کی جانب سے جائزہ لی گئی بی ڈی ایس رپورٹ کے مطابق بم ماہرین نے چھت اور پارکنگ ایریاز سمیت کے پی او عمارت کی تمام منزلوں کی اچھی طرح تلاشی لی اور دہشت گردوں کی لاشوں سے قابل استعمال 2 خودکش جیکٹس مکمل سسٹم کے ساتھ برآمد کیں۔

رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے قبضے سے کمرشل دھماکا خیز مواد، بال بیرنگ، اسٹرائیکر برآمد کرکے دونوں خود کش جیکٹس کو ناکارہ بنایا گیا۔

دہشت گردوں کی لاشوں اور مختلف مقامات سے برآمد کیے گئے 5 ’مس فائر کیے گئے‘ دستی بم آر جی ڈی-1کو کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا، کے پی او کی چوتھی منزل اور چھت سے 3 استعمال شدہ اسٹن (فلیش) گرینیڈ بھی برآمد ہوئے

سی ٹی ڈی افسر راجا عمر خطاب نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی جن میں ایک تقریباً 22 سال کفایت اللہ تھا جس کا تعلق لکی مروت تھا جب کہ دوسرے دہشت گرد 20 سالہ ظالا نور کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔

راجا عمر خطاب کے مطابق تیسرے عسکریت پسند کی شناخت کے لیے کوششیں جاری ہیں، نجی نیوز ’جیو‘ نے کفایت اللہ کے اہل خانہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ 5 ماہ قبل افغانستان فرار ہو گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں