سیکیورٹی فورسز کی ملک بھر میں کارروائیاں، متعدد دہشت گرد ہلاک، سیکڑوں گرفتار

اپ ڈیٹ 21 فروری 2023
سیکیورٹی فورسز کی مُلک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کارروائیاں کامیابی سے جاری ہیں — فوٹو: اے پی پی
سیکیورٹی فورسز کی مُلک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کارروائیاں کامیابی سے جاری ہیں — فوٹو: اے پی پی

سیکیورٹی فورسز کی مُلک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کامیابی سے جاری ہیں جن کے دوران گزشتہ 3 ماہ میں مجموعی طور پر 6 ہزار 921 آپریشنز میں 142 دہشت مارے گئے جب کہ ایک ہزار 7 کو گرفتار کیا گیا۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق سرکاری ادارے کی جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سیکیورٹی فورسز نے متعدد کامیاب کارروائیاں اور نتیجہ خیز آپریشنز کیے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران فورسز نے نہ صرف دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا بلکہ ان کے متعدد حملے بھی ناکام بنائے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 ماہ میں مجموعی طور پر 6 ہزار 921 آپریشنز میں 142 دہشت مارے گئے جب کہ ایک ہزار 7 کو گرفتار کیا گیا۔

ان کارروائیوں کے دوران صرف خیبر پختونخوا میں ایک ہزار 960 آپریشنز کیے گئے جن میں ایک ہزار 516 ایریا ڈومینیشن آپریشنز، 301 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز، 143 ایریا سینیٹائزیشن آپریشنز شامل ہیں۔

اس عرصے کے دوران صوبے میں دہشت گردی کو کچلنے کے لیے کی گئی کارروائیوں میں 98 دہشت گردوں کو ہلاک اور 540 کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 3 ہزار 414 آپریشنز کیے گئے جن میں 2 ہزار 980 ایریا ڈومینیشن آپریشنز، 67 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز، 367 ایریا سینیٹائزیشن آپریشنز شامل ہیں، ان آپریشنز میں 40 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور 112کو گرفتار کیا گیا۔

اسی طرح سندھ میں 752 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 3 دہشت گردوں کو ہلاک اور 344 کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران پنجاب میں 165 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، ان آپریشنز کے دوران ایک دہشت گرد کو ہلاک اور 11 کو گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے جہاں زیادہ تر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے 17 فروری (جمعے) کے رزو تین دہشت گردوں نے شاہراہ فیصل پر قائم کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے۔

قبل ازیں 30 جنوری کو پشاور کے ریڈ زون میں بدترین خودکش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

خودکش دھماکے کی ذمہ داری ابتدائی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی، مگر بعد ازاں اس نے حملے سے خود کو الگ کردیا تھا لیکن متعدد ذرائع نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ یہ حملہ دہشت گردوں کے مقامی گروپوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان، نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ہے جس نے گزشتہ برس ملک بھر میں 100 سے زائد حملے کے جن میں سے زیادہ تر حملے اس وقت کیے گئے جب گزشتہ برس اگست میں اس کے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تلخی پیدا ہوئی، جس کے بعد کچھ عرصہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن 28 نومبر 2022 کو کالعدم ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل پشاور کے نواحی علاقے سربند میں تھانے پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ڈی ایس پی بڈھ بیر اور ان کے 2 گن مین شہید ہوگئے تھے۔

اس واقعے سے ایک روز قبل 7 جنوری کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں عسکریت پسندوں نے پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا تھا۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر 2022 کو سیز فائر کے خاتمے کے بعد بنوں میں دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس 8 دسمبر کو ضلع بنوں میں کنگر پل کے قریب چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔

بعد ازاں 18 دسمبر کو بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں قید دہشت گردوں نے تفتیش کاروں کو یرغمال بنا کر اپنی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

سال 2022 کے دوران خیبرپختونخوا میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ پولیس نے جنوبی اور شمالی وزیرستان، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ مقامات قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق 2022 میں پولیس کے خلاف ٹارگٹڈ حملوں میں بھی اضافہ ہوا، دہشت گردوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں 118 پولیس اہلکار شہید اور 117 زخمی ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں