یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ انصاف کا نظام کس طرح کام کرتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2023
جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ دو ججوں کے بینچ کی سربراہی کر رہے تھے  —فائل/ فوٹو: اے ایف پی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دو ججوں کے بینچ کی سربراہی کر رہے تھے —فائل/ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ لوگوں کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ انصاف کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے کہ عدلیہ ایک اور صرف ایک مقصد یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی جو اسے مؤثر، منصفانہ اور شفاف طریقے سے کرنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بات بدھ کے روز جاری کردہ 9 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کی جو عدالت عظمیٰ کے بینچوں میں اچانک تبدیلی اور مقدمات کی تعین کے معاملے پر جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بینچز کی بلا جواز صوابدیدی تبدیلی نے شکوک و شبہات پیدا کیے اور عام لوگوں کو ایسے نظام کی انصاف پسندی پر سوالات اٹھانے کی ترغیب دی جو من مانے طور پر کچھ شہریوں پر دوسروں کو ترجیح دیتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی پوری طرح سے محفوظ بنائی جائے لیکن اگر سپریم کورٹ کے رجسٹرار، جج یا یہاں تک کہ چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) پہلے سے طے شدہ، معقول اور منصفانہ معیار کے بغیر جلد سماعت کے لیے خاص مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں تو اس سے عدلیہ کی آزادی کا اصول مجروح ہوسکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دو ججوں کے بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے، انہوں نے اپنے نوٹ میں کہا کہ وہ جسٹس عیسیٰ کے خیالات کا احترام کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے نے عوام کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق فراہم کیا ہے، یہ ایک بنیادی حق ہے، شفافیت احتساب کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بینچز کی اچانک تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں تھی جسٹس یحیٰی آفریدی سے جونیئر جج کو ان پر ترجیح دی گئی کہ وہ بینچ کی سربراہی کریں لہذا ہمارے لیے اس معاملے کو حل کرنا لازمی ہوگیا جو انتہائی اہم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان لوگوں کے لیے جن کے معاملات 28 فروری کو سماعت کے لیے مقرر تھے لیکن سنے نہیں جاسکے، ہم معذرت خواہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت کی آزادی، سالمیت اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے قانون کی حکمرانی، بینچوں کی تشکیل میں شفافیت اور انصاف اور مقدمات کی یکسوئی کو قائم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ قواعد کسی بینچ پر جج یا ججوں کو تبدیل کرنے یا ان کی تعداد کو کم کرنے کے لیے رجسٹرار یا سی جے پی کو کوئی اختیار نہیں دیتے۔

جسٹس عیسیٰ نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے پہلے کہا تھا کہ من مانے طور پر بنچوں کی تشکیل نو ’نظام کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

اسی کیس میں بینچ کے ایک اور رکن نے کہا کہ ایک بینچ جو ایک بار تشکیل دیا جاتا ہے اور اس معاملے کی سماعت شروع کردیتا ہے اسےچیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات کے استعمال میں دوبارہ تشکیل نہیں دے سکتا، جب تک کہ بینچ کا کوئی رکن (ممبرز) دستبردار نہ ہوجائے۔

تبصرے (0) بند ہیں