وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہر وقت یہ کہنا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یہ ٹھیک نہیں، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت جو حکومت بیٹھی ہوئی ہے اس نے گزشتہ برس اپریل میں یہ اصولی فیصلہ کیا تھا کہ ریاست کو بچانا ہے یا سیاست کو۔

انہوں نے کہا کہ عمران نیازی پاکستان کو ڈبو چکا تھا اور اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے جس پر میں نے مضامین بھی لکھے تھے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے حکومت لینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ قابل ستائش ہے اور اپنی سیاست پر ریاست کو ترجیح دی، موجودہ حکومت نے جو فیصلہ کیا وہ بہت اچھا کیا کیونکہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور کچھ لوگوں نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ عمران خان اس تباہی سے خود ہی گر جاتا لیکن اس کے ساتھ پاکستان بھی گرجاتا۔

انہوں نے کہا کہ ہر وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا، ہم مشکل حالات سے ضرور گزر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ملک کو کس طرح ان حالات سے نکالنا چاہیے، ان (عمران خان) کو صرف یہ سوچ ہے کہ کس طرح تنقید کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو لانے والوں نے کہا تھا کہ اگر یہ رہتے تو ملک خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کو لانے والے لوگ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ختم ہوجائے گا ٹوٹ جائے گا، ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ عالمی صورتحال کیا ہے اور کیا مہنگائی صرف پاکستان میں ہو رہی ہے یا کہیں اور بھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیلابی صورتحال کی وجہ سے دالیں، گندم، کھاد درآمد کی جس پر چند ماہ میں اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔

’چینی کمرشل بینک سے 1.3 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی توقع ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے آج پاکستان اس دہانے پر پہنچا ہے، یہ لوگ بالکل بھول گئے ہیں کہ موجودہ حکومت آتے ہی سیلاب آگیا جس کی تباہی سے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 3.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 5.44 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اور مجمومی طور پر 9.26 ارب کے ذخائر ہیں لیکن اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ چین نے دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ہم نے تقریباً 6.5 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جن میں دو ارب چینی بینکوں جبکہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آنے والے دنوں میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا لمیٹڈ (آئی سی بی سی) سے 1.3 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی توقع ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکے۔

’ٹوئٹ کرنے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے مجھے یا کسی سیاسی جماعت کو نہیں‘

وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت کے قرضوں، ادائیگیوں پر تفصیلی بات کرتے ہوئے عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافے پر بات کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’کس نے اس ملک میں مانیٹری پالیسی کو الگ کیا ہے، قانون میں تبدیلیاں کی ہیں، کس نے اداروں میں تبدیلیاں کرکے نیا سسٹم بنایا ہے، وزارت خزانہ اس کی ذمہ دار ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پہلی بار ضمنی بجٹ آیا ہے جو کہ ٹیکسز کے ہدف سے نہیں آیا بلکہ توانائی کی قرضوں سے آیا ہے جس میں 855 ارب روپے کا فرق تھا، لہٰذا ضمنی بجٹ میں ٹیکسز اس لیے نہیں لگے کہ ایف بی آر ہدف پورا نہ کر سکا۔

اسحٰق ڈار نے گزشتہ حکومت پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو کیا اس کو قبول کریں، ٹوئٹ کرنے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے مجھے یا کسی سیاسی جماعت کو نہیں، ایک طرف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ چل رہا ہے اور دوسری طرف آپ اس طرح کے ٹوئٹ کر رہے ہیں۔

’کیا یہ روڈ میپ پالیسی نہیں کہ ابھی تک ملک دیوالیہ نہیں ہوا‘

انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ اس بات کو دہرا دوں کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بند کریں، نہ ملک دیوالیہ ہوا ہے نہ ہی ہوگا، جب میں کہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے گا تو اس بات پر بھی تنقید ہوتی ہے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جو ساتھی ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ معاشی پالیسی نہیں ہے تو معاشی پالیسی بھی ہے اور روڈ میپ بھی مگر اس کا اخبار میں اشتہار نہیں دیا جاسکتا، کیا روڈ میپ پالیسی نہیں کہ ابھی تک ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ کاش پانچ سال پہلے میری بات سن لی جاتی جو میں کہتا تھا کہ ہم اتنا خرچ کریں جتنی ضرورت ہے تو آج پاکستان یہاں کھڑا نہیں ہوتا، مگر ہم نے وہ خرچ کیا ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ ہم جلد ہی اس صورتحال سے نکل جائیں گے اور مجھے اتنی توقع ہے کہ ہم 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر اور قومی ذخائر 16 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ملک سے گندم اور کھاد اسمگل ہوتی تھی اب ڈالر اسمگل ہو رہے ہیں جس کے خلاف پوری کارروائی کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ کی مکینزم اسٹیٹ بینک پاکستان کے پاس ہے جو قانون گزشتہ حکومت نے بنایا تھا اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہے، جب میں جہاز میں بیٹھا (پاکستان آنے کے لیے) تو لوگوں نے بڑی مہربانی کی اور باتوں باتوں میں ڈالر 217 پر آگیا اور جب امریکا میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تو پتا نہیں کس نے جادو چلایا کہ وہ پھر سے بڑھنا شروع ہوگیا۔

انہوں نے ڈالر کی قدر میں اضافے سے بے خبر ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کل کیا ہوا مجھے پتا نہیں، آج کیا ہوا، آج بھی ڈالر 10 روپے بہتر ہوگیا ہے، جس کا مجھے پتا نہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں