عارف نقوی کی امریکا کو حوالگی کے خلاف آخری اپیل بھی مسترد

09 مارچ 2023
برطانیہ میں عارف نقوی کی حوالگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کا آغاز 2020 میں ہوا تھا — فائل فوٹو / رائٹرز
برطانیہ میں عارف نقوی کی حوالگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کا آغاز 2020 میں ہوا تھا — فائل فوٹو / رائٹرز

ختم ہونے والی پرائیویٹ ایکویٹی فرم ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی امریکا کو حوالے کیے جانے کے خلاف اپنی آخری اپیل میں ہار گئے، جہاں انہیں دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی استغاثہ کا الزام ہے کہ عارف نقوی نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کے زیر انتظام ایجنسی اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن (او پی آئی سی) سمیت سرمایہ کاروں کو دھوکا دینے کی سازش تیار کی۔

عارف نقوی کچھ بھی غلط کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن اگر جرم ثابت ہوا تو انہیں 291 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

عارف نقوی نے 2021 میں اپنی حوالگی کی منظوری کو لندن ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن جج جوناتھن سوئفٹ نے انہیں اس وقت کی سیکریٹری داخلہ پریتی پٹیل کے ذریعے ان کی حوالگی کی منظوری کے خلاف عدالتی نظرثانی کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

اس سے قبل جب اس سال کے اوائل میں ایک مجسٹریٹ کی عدالت نے حوالگی پر کوئی پابندی نہیں پائی تو پریتی پٹیل نے حوالگی کی منظوری دے دی تھی۔

عارف نقوی کے وکیل ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے ایک روز قبل ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اگر انہیں امریکا کے حوالے کیا گیا تو انہیں نیو جرسی کی جیل میں رکھا جا سکتا ہے جہاں انہیں پرتشدد مجرموں کے ساتھ قید گزارنا پڑ سکتی ہے۔

ان کے وکلا نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور دعویٰ کیا کہ اس دلیل کی حمایت کرنے والے نئے شواہد سامنے آئے ہیں جس میں امریکی جیلوں کے نظام کی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔

انہوں نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دی گئی دلیل کو دہرایا کہ عارف نقوی ڈپریشن کا شکار ہیں اور انہیں ’خودکشی کا خطرہ‘ ہے۔

انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ 2021 کی مجسٹریٹ عدالت کا فیصلہ امریکی جیل کے حالات کو مدنظر رکھنے میں ناکام رہا جس کا عارف نقوی کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کے سی نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ نیو جرسی میں ایسیکس کاؤنٹی اصلاحی سہولت کے حالات جہاں عارف نقوی کو رکھا جا سکتا ہے، ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ان کی ذہنی صحت متاثر ہوگی۔

امریکا کو حوالگی

امریکی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہا کہ عارف نقوی کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر حوالگی ہوتی ہے تو استغاثہ مقدمے کی سماعت سے قبل ضمانت کی مخالفت نہیں کریں گے۔

امریکی حکومت کے وکیل مارک سمرز نے دلیل دی کہ عارف نقوی کے کیس کے جج، ڈسٹرکٹ جج لیوس کپلن، وہی ہیں جنہوں نے ایف ٹی ایکس کے بانی سیم بنک مین فرائیڈ کو ضمانت دی، یہ دلیل دی کہ یہ ایک ’مضبوط اشارہ‘ ہے کہ عارف نقوی کو بھی ضمانت دی جائے گی۔

تاہم ان کے وکلا کا ماننا ہے کہ ضمانت کی اجازت دینا یا انکار کرنا جج کی صوابدید ہے اور یہ کہ اگر ان کی حوالگی کی گئی تو امریکی حکام اپنا ارادہ بدل لیں گے۔

جج جوناتھن سوئفٹ نے اپیل کو مسترد کر دیا اور بدھ کو فیصلہ دیا کہ عارف نقوی کی حوالگی کی منظوری کے 2021 کے فیصلے کے بعد سے جیل کے حالات میں کوئی ’تبدیلی‘ نہیں آئی ہے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں امریکی جیل میں رکھا گیا تو ان کے خودکشی کے خطرے کا ’مناسب انتظام‘ کیا جا سکتا ہے۔

بدھ کے فیصلے کے بعد امریکی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے پاس عارف نقوی کی جانب سے امریکا کے سامنے ’محفوظ اور منظم ہتھیار ڈالنے‘ سے قبل انتظامات کرنے کے لیے 28 دن کا وقت ہے۔

عارف نقوی اس وقت حوالگی کی کارروائی کے دوران 15 ملین پاؤنڈ کا زرِضمانت جمع کروانے کے بعد محدود شرائط میں ضمانت پر ہیں، وہ اپنے خاندان کے ساتھ ساؤتھ کینسنگٹن میں اپنے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں۔

ان پر 2019 میں ابراج کے خاتمے پر امریکی پراسیکیوٹرز نے الزام لگایا تھا کہ اس کے عروج پر 13 ارب ڈالر کا سرمایہ کاری پورٹ فولیو تھا، الزامات میں دھوکا دہی، وائر فراڈ، اور منی لانڈرنگ سے لے کر رشوت تک شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں