چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف سماعت پر ریمارکس دیے ہیں کہ میرے خیال میں 2019 کی ایمنسٹی اسکیم کامیاب رہی جس سے کافی لوگ مستفید ہوئے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی زیر سربراہی تین رکنی خصوصی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

مقدمے کی 43ویں سماعت ہوئی جہاں معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث عمران خان کی وارنٹ معطلی کیس کے لیے ہائیکورٹ میں مصروف ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسری جانب سے دلائل سنتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ عدالت متعدد بار نیب قانون میں شفافیت لانے کا کہہ چکی لیکن عمل نہیں ہوا تھا اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کبھی کبھی جو عدالت میں کہوں اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو سمجھا جاتا ہے۔

’واضح کہہ چکا ہوں کہ کرپشن سے تفریق پیدا ہوتی ہے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واضح کہہ چکا ہوں کہ کرپشن سے تفریق پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں ناانصافی بڑھتی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوزم سے اسرائیل یا امریکا جیسے حالات بنتے ہیں، امریکا میں دو بڑی سیاسی جماعتیں عدالتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تجویز عدالتی تحمل کی دی جاتی ہے لیکن پھر حلف کی پاسداری بھی کرنا ہوتی ہے.

وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے کہ موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کی تجویز کردہ ترامیم میں کچھ اضافہ کیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم سے نیب اختیارات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کر دیا ہے،عمران خان نے درخواست میں مفروضوں پر مبنی باتیں کی ہیں، تحریک انصاف نے 2019 میں خود ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں 2019 کی ایمنسٹی اسکیم کامیاب رہی جس سے کافی لوگ مستفید ہوئے، آئندہ ایمنسٹی اسکیم کوئی نہیں لے گا کیونکہ بعد میں نیب کاروائی کا آغاز کر دیتا ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے اپنی کابینہ کے ممبران کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا فنانشک ایکشن ٹاسک فورس نے کہا تھا کہ منی لانڈرنگ کے معاملات نیب دیکھے اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ فیٹف نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا درخواست گزار نے اپنی طرف سے یہ باتیں لکھ دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے درخواست گزار کی خامیوں سمیت غلطیوں کو بھی اجاگر کیا ہے،حکومت نے نیب قانون کو وسعت دی جس کو درخواست گزار نے نہیں سراہا، جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنا کس کا اختیار ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کی نوعیت کو دیکھ کر نیب بھی تحقیقات کر سکتا ہے،خود قانون بنانے والے سابق وزیراعظم کی درخواست کو عدالت نے تسیلم کیا تو نئی تاریخ رقم ہوجائے گی۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 16 مارچ تک ملتوی کردی۔

’نیب ترامیم‘

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں