ایم کیو ایم کا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ سے متعلق حکومتی اتحاد کے مؤقف سے اظہارِ لاتعلقی

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2023
ترجمان ایم کیو ایم-پاکستان نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی قیادت نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
ترجمان ایم کیو ایم-پاکستان نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی قیادت نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

انتخابات کے التوا کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے آج سماعت کے دوبارہ آغاز کے پیشِ ںظر حکومت بھی اپنی حکمت عملی تیار کررہی ہے تاہم حکومتی اتحاد میں اس وقت واضح دراڑیں نظر آئیں جب متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) نے اسے ’دو جماعتوں کا مسئلہ‘ قرار دیتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے یکم اپریل کو لاہور میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے اجلاس میں کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی تاہم وہ کراچی پریس کلب میں ’میٹ دی پریس پروگرام‘ میں شرکت کے لیے جلد ہی اجلاس چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اس اجلاس میں سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، اجلاس میں سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، رہنما مسلم لیگ (ن) مریم نواز اور حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے دیگر نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اجلاس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق اِس تین رکنی بینچ کی کارروائی فوری طور پر ختم کرنے اور ازخود نوٹس کیس میں چار رکنی اکثریتی فیصلے کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا گیا‘۔

ایم کیو ایم-پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے خلاف حکمران اتحاد کے مؤقف کی حمایت کرنے سے متعلق سوال پر ترجمان ایم کیو ایم-پاکستان نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم میں شامل 2 جماعتوں کا مسئلہ ہے، ہم اس کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں، پی ڈی ایم نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم-پاکستان سے رابطہ نہیں کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ان فیصلوں کا حصہ نہیں ہیں جو مبینہ طور پر لاہور میں یکم اپریل کے اجلاس میں کیے گئے کیونکہ وہ اپنی مصروفیات کے سبب اجلاس کے اختتام سے پہلے ہی چلے گئے تھے۔

ایم کیو ایم-پاکستان کا تازہ ترین مؤقف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ قیاس آرائیوں جاری ہیں کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ایم کیو ایم-پاکستان سے رابطے بحال کرنے کے لیے کراچی بھیجا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی صدر چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ ایم کیو ایم-پاکستان کے بعض رہنماؤں سے رابطے کی اطلاعات ہیں، تاہم ایم کیو ایم-پاکستان کی سینیئر قیادت ایسی کسی پیش رفت کے بارے میں خاموش ہے۔

پارٹی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’ایم کیو ایم-پاکستان وفاق میں حکمران اتحاد کا حصہ ہے لیکن یہ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت نہیں ہے، پی ڈی ایم کا اپنا مؤقف ہے، پیپلزپارٹی بھی پی ڈی ایم کے ہر مؤقف سے اتفاق نہیں کرتی اور اسی طرح ایم کیو ایم-پاکستان بھی پی ڈی ایم کے ہر مؤقف سے اتفاق نہیں کرتی‘۔

ایم کیو ایم پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہماری پارٹی کسی بھی ریاستی ادارے بالخصوص عدالت عظمیٰ سے تصادم نہیں چاہتی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں ملوث ہونے پر ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑا، ہم اسے دہرانا نہیں چاہتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم-پاکستان میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، انہیں گزشتہ سال ایم کیو ایم کے ساتھ دستخط کیے گئے ’چارٹر آف رائٹس‘ پر عمل درآمد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ملک میں جاری ڈیجیٹل مردم شماری میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بھی وفاقی حکومت کوئی بامعنی قدم نہیں اٹھا رہی‘۔

ترجمان ایم کیو ایم-پاکستان نے تصدیق کی کہ ’پی ٹی آئی قیادت نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا ہے اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے، تاہم پی ٹی آئی کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم-پاکستان پہلے اپنی رابطہ کمیٹی سے مشاورت کرے گی اور پھر فیصلہ کرے گی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں