وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کی تمام پیشگی شرائط مکمل کر چکے ہیں، صرف ایک دوست ملک کی ایک ارب ڈالر کی تصدیق کا انتظار ہے، اس کے بعد اسٹاف کی سطح کے معاہدے کے لیے تمام شرائط پوری ہو جائیں گی۔

سرکاری ٹی وی پر ویڈیو خطاب کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ قیاس آرئیاں کی جارہی ہیں، ہر ایک اپنا پنا ورژن دے رہا ہے، آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی کوئی کوئی وجہ بتاتا ہے، اور کوئی دوسری وجہ بتاتا ہے، میں عرض کر دیتا ہوں جب میں اکتوبر 2022 میں اپنے وفد کے ساتھ آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تھا، میں نے ان کو مدعو کیا تھا کہ وہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے اوائل میں نواں جائزہ جو ستمبر 2022 کا جائزہ ہے، اس کے لیے وہ پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف کا وفد جنوری 2023 میں پاکستان آیا، جو 9 فروری کو ختم ہوا، مشکل تر مذاکرات تھے، وہ مکمل ہوئے، اسی کے نتیجے میں ہم نے کئی پیشگی ایکشن ان سے طے کیے، چونکہ ان کی شرط تھی کہ ہم پیشگی عمل کریں، اس میں 170 ارب روپے کے ٹیکسز بھی لگانے تھے، وہ تمام پیشگی شرائط مکمل ہو چکی ہیں، اب پھر تاخیر کس بات کی؟

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نویں جائزے کی تمام چیزیں مکمل کر چکے ہیں، ساتویں اور آٹھویں جائزے کے وقت ہمارے 2 دوست ممالک نے بیرونی کھاتوں میں معاونت کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا تھا، صرف اس وجہ سے تاخیر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو ہفتوں میں ایک دوست ملک نے مالی معاونت کی آئی ایم ایف کو تصدیق کردی ہے، جو 2 ارب ڈالر کی ہے، اور صرف ایک دوست ملک کی ایک ارب ڈالر کی تصدیق کا انتظار ہے، اس کے بعد اسٹاف کی سطح کے معاہدے کے لیے تمام شرائط پوری ہو جائیں گی، اس کے بعد پھر بورڈ اجلاس ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اپنا کام کرچکی ہے، وزیراعطم کی 800 سی سی تک کی گاڑی اور موٹرسائیکلوں کے حوالے سے ایک سوچ تھی کہ جو بڑی گاڑیاں زیادہ قیمت پر پیٹرول خریدیں، اور وہ زیادہ قیمت دیں گے اس سے رعایت 800 سی سی اور موٹرسائیکل والوں کو دی دیا جائے، یعنی امیر سے پیسے لے کر کم آمدنی والوں کو ریلیف دیا جائے لیکن اس کا بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ متعدد بار بات ہو چکی ہے، ہم نے ان کے تمام تر سوالات کا تسلی بخش جواب دیا ہے کیونکہ وہ سبسڈی بجٹ سے نہیں ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد آئی ایم ایف کا جائزہ مکمل ہوگا، پاکستان اس بھنور سے نکلے گا، کئی ایسے اسکیموں کی تیاری ہو ری ہے، جوپاکستان کو ایک نیا رخ دے گی، پاکستان کو ترقی کی طرف دوبارہ لے کر جائے گی۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ آج اور کل کی درمیانی سحری سے پہلے اسلام آباد سے روانہ ہو کر امریکا پہنچنا تھا، اس کے بعد پیر سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے اجلاس ہوتے ہیں، اس میں شرکت کرنی تھی، اس کا شیڈول کئی مہینے پہلے آجاتا ہے۔

انہوں نےکہا کہ پاکستان کی طرف سے عام طور سے وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری معاشی امور اور اگر معاشی امور کے وزیر ہوں تو یہ لوگ ہمیشہ وہاں جاتے ہیں، جو لازمی اجلاس ہوتے ہیں، جس میں دنیا کے 150 کے قریب وزیر خزانہ اور ان ممالک کے مرکزی بینکوں کے گورنر جاتے ہیں، یہ معمول کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں، اسی طرح وہاں جاتے ہیں تو دیگر اداروں کے ساتھ بھی اجلاس ہوتے ہیں۔

’آئینی بحران پیدا کر دیا گیا ہے‘

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں، جو آئینی بحران پیدا کر دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا ایک بینچ 9 سے شروع ہوا اور 7 اور پھر 5 سے 3، اس کا ایک فیصلہ ہے، جس میں یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کے لیے جاری کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا 69 ہے، 2017 کا قانون بنا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئیں، نگران حکومتیں ہونی چاہیں، مردم شماری پر بھی 35 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں، اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ وفاقی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ 10 اپریل تک یہ پیسے وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو مہیا کرے، 11 اپریل کو الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عدالت عظمی کو بتائے کہ پورے پیسے ملے ہیں، آدھے پیسے ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے ان حالات میں وزارت خزانہ کی ایک اہم ذمہ داری پیسوں کے حوالے سے ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزارت دفاع نے سیکیورٹی کے لیے اہلکار دینے سے معذرت کر چکے ہیں، اس کی وفاقی اور پنجاب حکومت کو 17 تاریخ تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ انتظامات کی رپورٹ مہیا کریں، یہ وہ حالات ہیں، اس کے پیش نظر ملک میں آئینی بحران پیدا کیا جاچکا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جیسا کہ مالی اور معاشی بحران پچھلے پانچ سالوں پیدا کیے جاچکے جہاں ہم بطور قوم عجیب بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، ان حالات میں وزیراعظم کی ہدایت پر ذاتی طور پر دورے پر جانا تھا، اسے ملتوی کیا ہے، یہ کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں ہے، کووڈ میں ورچول اجلاس ہوتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ساتھ جو اجلاس ہیں، جہاں میری ضرورت ہے، میں اسلام آباد سے ورچوئل اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں، میری ٹیم کے ساتھ ملاقاتیں ہو چکی ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری فنانس، سیکریٹری معاشی امور، پاکستان کے وفد کے طور پر وہاں کے سفیر ان کو جوائن کریں گے۔

’پاکستان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا ممبر ہے، بھکاری نہیں‘

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ان کو کسی بھی معاملے پر ہدایات چاہیے ہوں گی، وہ مجھ سے لیں گے اور وہ مجھ سے بریفینگ لے کر جارہے ہیں، اس میں کوئی عجوبہ نہیں ہے، بڑی حیرانی کی بات ہے کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے آئی ایم ایف نے منع کر دیا ہے، آئی ایم ایف مجھے جانے سے منع نہیں کرسکتا، پاکستان ایک ملک ہے، اور پاکستان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا ایک ممبر ہے، ایک بھکاری نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وفد کو کوئی منع نہیں کرسکتا، جب 1998 میں میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کے اوپر جو معاشی پابندیاں لگیں، اس میں آئی ایم ایف پروگرام کو معطل کر دیا گیا، ان حالات میں بھی اجلاس میں ہم نے شرکت کی تھی، کچھ تجزیہ کار اس کو عجیب قسم کے رنگ دے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے وہ اجلاس نہیں ملے جو میں چاہ رہا تھا، کوئی یہ کہہ رہا ہےکہ بحران کو ایک طرف رکھ کر جانا چاہیے تھا، یہ ملکی معاملات ہیں، قومی مفاد کے اوپر اس طرح کی ’لوز ٹاک‘ مناسب نہیں ہیں۔

’90 دن میں انتخابات تو اب بھی نہیں ہو رہے‘

ان کا کہنا تھا کہ جو آئینی بحران پیدا کر دیا گیا ہے، سوچنا چاہیے تھا کہ کیا یہ صحیح وقت ہے بحران پیدا کرنے کا، میں آئینی اور قانونی وضاحتیں اور دلائل نہیں دینا چاہتا، اچھی خاصی تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں، 90 دن میں انتخابات تو اب بھی نہیں ہو رہے، بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی، انتخابات نہیں ہوئے، ابھی جو تاریخ ہے، اگر اس پر بھی ہوں گے تو 90 دن میں تو نہیں ہوں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ ملک جو پہلے ہی بحران سے گزر رہا ہے، اس کے بعد سیلاب کی آفت پاکستان پر آگئی، مجھے نہیں پتا کہ وہ کونسی اندرونی و بیرونی قوتیں ہیں جن کی کئی مہینوں سے ایک ہی گردان ہے کہ پاکستان نے ڈیفالٹ کرنا ہے، ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے ایک بھی ادائیگی میں تاخیر نہیں کی۔

’ پچھلے چند مہینوں میں تقریباً 11 ارب ڈالر ادا کر چکے ہیں’

ان کا کہنا تھا کہ ہم تقریباً 11 ارب ڈالر پچھلے چند مہینوں میں ادا کر چکے ہیں، خدا کے لیے یہ نہ کریں، آپ ایسی تصویر بنائیں، جس سے آپ کے ملک کے مفادات کو نقصان ہو اور آپ کے دشمن خوش ہوں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر میں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر اپنا پروگرام ملتوی کیا لیکن جو ضروری اجلاس ہیں، میں اسلام آباد سے ان ورچول اجلاسوں میں شرکت کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لازمی اجلاس ہیں، جس میں ساری دنیا کے وزیر خزانہ ہوتے ہیں، جس میں بنیادی طور پر عالمی بینک کے صدر اور آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقاریر ہوتی ہیں، ان میں شرکت نہیں کروں گا، اس کی ضرورت نہیں ہے، میری ٹیم تفصیل لے کر آئے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں