پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ بات چیت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ان مذاکرات میں شریک ہوناچاہیے کیونکہ اختیار سارا ان کے پاس ہے، اسٹیبلشمنٹ بیٹھے، ہم بیٹھیں اور حکومت بیٹھے اور ایک دوسرے کو جگہ دے کر معاملات آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فواد چوہدری نے حماد اظہر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ایران اور سعودی عرب کے آپسی تعلقات میں بہتری ہوئی ہے اورپوری عربدنیامیں تعلقات کیتعلقات کی نوعیت ہی بدل گئی ہےلیکن 1970 سے ان تمام ایونٹس میں اہم کردار ادا کرنے والا پاکستان بالکل ایک سائیڈ پر ہو گیا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ یہ عمران خان تھے جنہوں نے ایران اورسعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستان کے لیے کا نقطہ نظر رکھا تھا لیکن بدقسمتی سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ انتمام اہم ایونٹس میں پاکستان ایک طرف کھڑا ہے، کشمیر اور فلسطین کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ پر حملہ کیاگیا لیکن پاکستان سے کوئی آواز ہی نہیں اٹھ پائی کیونکہ ہماری تو اپنی ہی پولیس یہی سب کر رہی ہے، ہم کس منہ سے کشمیر اور فلسطین کے مظالم کا ذکر کریں، جب خود یہاں پر رات تین چار بجے گھروں میں گھس کر چادر چادر دیواری کا لحاظ نہ کیا جائے، جب پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر کجے خلاف 144کیسزہوجائیں اور اس میں سے پندرہ دہشت گردی کے کیسز ایک دن میں ہو جائیں تو ہم کس منہ سے کشمیر اور فلسطین کی بات کریں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہاکہ پاکستان کی سیاست کو سازش کے تحت بحران میں مبتلا کیاگیا، آج پاکستان کی سیاست کے ٹھیک ہونے کا واحد یہی ہے ہم انتخابات کی طرف بڑھیں، کیا کوئی سیاسی جماعت اتنے بزدل لوگوں پر مشتمل ہوسکتی ہے کہ وہ کہے کہ ہمیں الیکشن میں نہیں جانا اور نامزدگیوں پر حکومت کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دو بینچ، پانچ، چھ بینچ یہ پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے، پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ یہ ہےکہ 90دن میں الیکشن ہونے چاہئیں، جہاں اسمبلیاں نہیں ہیں وہاں منتخب نمائندے آنے چاہئیں، کسی ایک جج نے یہ نہیں کہا کہ 90 دن میں الیکشن نہیں ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہاکہ کل جو نیشنل سیکیورٹی کونسل کا جو اعلامیہ آیا ہے اور اس سے پہلے وفاقی حکومت نے جو رپورٹ پیش کی ہے، وہ کہتے ہیں سیکیورٹی صورتحال اتنی خراب ہے کہ ہم دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں، ہم الیکشن نہیں کرا سکتے کیونکہ پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال اتنی خراب ہے کہ یہاں پر دہشت گرد ہمیں ڈکٹیٹ کرتے ہیں کہ کب الیکشن کرانے ہیں اور کب نہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہماری معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ ہمارے پاس الیکشن کرانے کے لیے ایک کروڑ ڈالر بھی نہیں ہیں اور ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، کوئی بھی حکومت جس میں تھوڑی سی بھی عقل ہو وہ عالمی سطح پر اپنا یہ مذاق بنوائے گی، ان دو رپورٹس کے بعد کیا وزیراعظم کو مستعفی نہیں ہو جانا چاہیے، پاکستان موجودہ قیادت کی وجہ سے اس حالت میں پہنچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے خلاف قراردار آئی کے آرٹیکل 68 کے منافی ہے، اس قرارداد پروزیراعظم ، خواجہ آصف، وزیرقانون سمیت کسی بھی اہم لیڈر نے دستخط نہیں کیے بلکہ جن 45 نے دستخط کیے ہیں ان میں سے زیادہ تر تو خواتین کی ریزرو سیٹ پر منتخب امیدوار ہیں، اگر ان اراکین نے 12 گھنٹے میں معافی نہ مانگی تو ہم ان کے خلاف ریفرنس لا رہے ہیں۔

اس موقع تحریک انصاف کے رہنما نے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نےسیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا، انہوں نے کہا ہے کہ وہ ججز کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ نہیں بننا چاہتے، یہ ایک مثبت اور درست سمت میں قدم ہے اوردوسری بات انہوں نے کی ہے کہ سیاسی جماعتیں بات چیت کا راستہ نہیں ختم کرتیں، میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ان مذاکرات میں شریک ہوناچاہیے کیونکہ اختیارسارا ان کے پاس ہے، اسٹیبلشمنٹ بیٹھے، ہم بیٹھیں اور حکومت بیٹھے اور ایک دوسرے کو جگہ دے کر معاملات آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس کی ایک بنیاد ہے کہ آپ کو انتخابات کا حق تسلیم کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ 12مہینوں میں آپ نے سر دھڑ کی بازی لگا لی ہے، عمران خان نہ آپ سے نااہل ہوئے اور نہ ہونا ہے، جو کیسز بنائے ہیں اگر آپ انہیں خود ایک مرتبہ پڑھ لیں تو آپ کو شرم آئے گی کہ آپ کے لوگوں نے حرکتیں کیا کی ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ صدر مملکت نے بل واپس بھیج کر درست فیصلہ کیا ہے، صدر مملکت نے نے یہ بل واپس بھیج کر تسلیم کیا ہے کہ سپریم کورٹ ، پاکستان کی پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کے اپنے اپنے فنکشن ہیں تو ان کا فیصلہ بالکل درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے گی یہ قانون بن سکتا ہے یا نہیں، سپریم کورٹ کے آٹھ جج اب تک یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ بینچ بنانا اور کیس فکس کرنا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں