حکومت کا گیس سے بجلی پر منتقلی، توانائی کی افادیت والی عمارتوں کی تعمیر کا منصوبہ

10 اپريل 2023
توانائی کے اخراجات پہلے سے ہی اوسط گھریلو اخراجات کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
توانائی کے اخراجات پہلے سے ہی اوسط گھریلو اخراجات کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

حکومت 45 ارب روپے کے توانائی کی بچت اور تحفظ کے منصوبے کے تحت تجارتی، صنعتی اور رہائشی شعبوں میں گیس سے بجلی پر منتقل ہونے کے لیے منتقلی کی 10 سالہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتی ہے اور توانائی کی بچت والی عمارتوں پر زور دینا چاہتی ہے جس سے سالانہ 50 کھرب روپے سے زیادہ کی توانائی کی بچت کا تصور کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے عالمی بینک سے 15 کروڑ ڈالر قرض کی بات چیت کے لیے چند روز قبل اس منصوبے کو باضابطہ طور پر منظوری دی تھی، جس میں نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی تکنیکی گرانٹ بھی شامل ہے۔

تاہم یہ دیکھا گیا کہ 10 سال کی منتقلی کی مدت بہت طویل ہے اور اسے کم سے کم کیا جانا چاہیے۔

منصوبے کے اسپانسر وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انرجی ایفیشینسی اتھارٹی ہیں جنہوں نے پلاننگ کمیشن کو اطلاع دی کہ پاکستان کی توانائی کی بچت کی موجودہ صلاحیت تقریباً ایک کروڑ سے ایک کروڑ 20 لاکھ ٹن تیل کے مساوی ہے۔

توانائی کی ایک اکائی کی تعریف ایک ٹن خام تیل کو جلانے سے نکلنے والی توانائی کی مقدار ہے۔

ملک کی موجودہ بنیادی توانائی کی سپلائی تقریباً 9 کروڑ 50 لاکھ ٹن تیل کے مساوی ہے اور 2025 میں 5.8 فیصد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ 11 کروڑ 50 لاکھ ٹن سے زائد ہوجانے کا امکان ہے، کیونکہ اس مدت کے دوران اس کی فی کس توانائی کی کھپت 405 کلو گرام تیل سے بڑھ کر 469 کلوگرام ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان میں توانائی کی بلند اور بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ مل کر توانائی کی زیادہ شدت گھریلو آمدنی اور معاشی مسابقت پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔

توانائی کے اخراجات پہلے سے ہی اوسط گھریلو اخراجات کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں اور گردشی قرضوں کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے درکار ٹیرف اصلاحات کے اقدامات کے ساتھ اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

صنعت کے لیے مہنگی توانائی اور اس کے غیر مؤثر استعمال کا امتزاج پاکستان کو خاص طور پر معیشت کے بین الاقوامی سطح پر سامنے آنے والے شعبوں میں نمایاں مسابقتی نقصان میں ڈالتا ہے۔

اس منصوبے کا مقصد فوسل ایندھن کی درآمدات کو کم کرنا ہے، جس سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی اور ملک کی مالیاتی صورتحال کو بہتر بنایا جائے گا، گھریلو اخراجات کو خاص طور پر حرارتی اور کولنگ کی ضروریات پر کم کیا جائے گا اور ایک سبز اور مؤثر معیشت کو فروغ دیا جائے گا۔

اس طرح سال 2047 تک، جب ملک 100 سال کا ہو جائے گا، پاکستان کے اعلیٰ متوسط آمدنی والے ملک کے درجے تک پہنچنے کے مقصد میں مدد ملے گی۔

اس منصوبے کا مقصد 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے کل اخراج میں سے 20 فیصد کو کم کر کے قومی سطح پر طے شدہ شراکت کے اہداف کو پورا کرنے میں مدد کرنا ہے، اخراج میں کمی کے لیے توانائی کا شعبہ سب سے اہم ہوگا کیونکہ یہ کل اخراج میں 46 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔

منصوبے کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق تمام شعبوں میں توانائی کے استعمال میں 25 فیصد کمی سے 16 گیگا واٹ فی گھنٹ توانائی کی بچت ہو سکتی ہے، جس سے لاگت پر سالانہ تقریباً 2 کھرب 91 ارب روپے کی بچت ہو گی۔

پاکستان میں زیادہ تر عمارتیں توانائی کی کارکردگی کے اعلیٰ معیار کے ساتھ تعمیر نہیں کی گئیں جس کے نتیجے میں صارفین کے لیے توانائی کی غیر ضروری کھپت اور اخراجات میں اضافہ ہوا ۔

موسم گرما میں غیر مؤثر عمارتیں زیادہ ٹھنڈک کی طلب کا باعث بنتی ہیں، خاص طور پر پیک آورز کے دوران قومی گرڈ پر دباؤ پڑتا ہے اور مہنگے اور آلودگی پھیلانے والے پلانٹس کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس منصوبے سے عمارت کے ڈیزائن کی ترقی میں مدد ملے گی جو ہاؤسنگ اتھارٹیز، متعلقہ سرکاری محکموں اور کاروباری اداروں کو آزادانہ طور پر فراہم کیے جاسکتے ہیں تاکہ وہ نئے ’گرین بلڈنگ کوڈز‘ کے مطابق توانائی کی بچت والی نئی عمارتوں کی تعمیر کرسکیں۔

عماراتی سیکٹر زیادہ تر جگہ اور پانی کو گرم کرنے کے لیے سب سے زیادہ رعایتی نرخوں پر آلات کے لیے کسی بھی ضابطے اور معیار کی عدم موجودگی میں انتہائی غیر مؤثر انداز میں ملک میں گیس کی مجموعی کھپت کا 26 فیصد استعمال کرتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ پائپ لائن پر مشتمل گیس نیٹ ورک تک رسائی 24 فیصد ہے جب کہ بجلی تک رسائی 73 فیصد سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ ہر موسم سرما میں گیس کی قلت، گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور درآمد شدہ مائع قدرتی گیس پر ملک کے بڑھتے ہوئے انحصار کے ساتھ توانائی کی بچت کا اقدام زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔

نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ حرارت کے لیے انورٹر ایئر کنڈیشنر استعمال کرکے موسم سرما میں 10-12 فیصد اور ٹھنڈک کے اس کے استعمال سے گرمیوں کے یوٹیلیٹی بلوں میں 20-25 فیصد کی بچت حاصل کی جاسکتی ہے۔

سردیوں میں گیس کے ہیٹر سے انورٹر اے سی پر منتقل ہونے سے کر تقریباً 4 کروڑ 60 لاکھ معیاری مکعب فٹ یومیہ گیس کی بچت ہو گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں