پنجاب: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف ’جامع کارروائی‘ شروع

10 اپريل 2023
پولیس کے 11 ہزار اہلکار آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی
پولیس کے 11 ہزار اہلکار آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں—فائل/فوٹو: اے ایف پی

پنجاب پولیس نے سندھ کی سرحد کے قریب کچے کے علاقے میں مبینہ ڈاکوؤں اور اغواکاروں کے خلاف ’جامع کارروائی‘ کا آغاز کردیا جہاں ایک گینگسٹر مارا گیا اور ایک پولیس اہلکار سمیت ان کے 6 ساتھی زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور نے ڈی پی او آفس میں پریس کانفرنس میں کہا کہ رواں برس اغوا برائے تاوان کے کیسز میں اضافے کے بعد خفیہ اطلاع کی بنیاد پر ملزمان کے خلاف کارروائی گزشتہ چند ماہ سے جاری تھی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی خفیہ ایجنسی اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب کی رپورٹس پر جامع کارروائی اتوار کو علی الصبح شروع کردی گئی۔

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ دونوں ایجنسیاں علاقے میں جرائم پیشہ افراد اور ان کے معاونین پر نظر رکھی ہوئی تھیں، ہم دریا کنارے میں موجود معاونین کو دہشت گردوں کے طور لے رہے ہیں اور انہیں جرائم پیشہ افراد کو پناہ دینے سے تنبیہ کردی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ کارروائی مچکا اور کچا کراچی کے علاقوں میں شروع کی گئی ہے جہاں جرائم پیشہ افراد کے کئی ٹھکانے ختم کردیے گئے ہیں اور جب آئی جی پی اور ان کی ٹیم وہاں پہنچی تو وہ فائرنگ کی زد میں آگئی تھی۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ کچے کے شہریوں کے لیے اسکول، ڈسپنسریاں اور دریا کے کنارے کے ساتھ راستے کھولنا ضروری تھا تاکہ خطے کا غلط استعمال روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن مکمل ہونے تک سی ٹی ڈی کے سربراہ کا دفتر رحیم یار خان منتقل کیا جا رہا ہے، علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور علاقے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لیے سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے فیصلوں کے مطابق پولیس کو تمام وسائل فراہم کیے جائیں گے، پولیس کے لیے مون سون سے قبل علاقے میں چیک پوسٹس قائم اور بحال کرنے کے لیے یہ بہترین موقع ہے۔

ریجنل پولیس افسر(آر پی او) بہاولپور رائے بابر سعید کے دفتر سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ ہلاک ملزم کی شناتخت مصطفیٰ کے نام سے ہوئی ہے جو فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارا گیا تھا۔

آر پی او نے کہا کہ دیگر پولیس رینجز سے 11 ہزار اہلکاروں کو اس آپریشن کے لیے بھیج دیا گیا ہے، جن میں پنجاب کانسٹیبلری کے 5 ہزار، ملتان، ڈیرہ غازی (ڈی جی) خان اور بہاولپور پولیس رینجز سے 2 ہزار اہلکار شامل ہیں۔

دوسری جانب ڈاکوؤں نے مشکا کے قریب دشتی فارم کے علاقے سے شام 6 بجے ایک تاجر سے 11 لاکھ روپے، بائیک اور آئی فون لوٹ لیا اور اسی دوران آئی جی کی سربراہی میں کچے کے علاقےمیں آپریشن جاری تھا۔

دریائے سندھ کا یہ علاقہ رحیم یارخان اور راجن پور کے اضلاع کے درمیان ہے جو 15 سے 20 کلومیٹر چورا ہے جہاں سال کے 10 سے 11 ماہ پانی بڑی اور چھوٹی بھاپ کی شکل میں بہتا ہے اور مون سون کے سیلاب کے دوران یہ مکمل طور پر بھر گیا تھا۔

کچے کا علاقہ سندھ میں ڈہرکی اور اوباڑو تک 100 کلومیٹر سے طول فاصلے پر پھیلا ہوا ہے، 2006 سے اب تک 6 بڑے آپریشنز کیے جاچکے ہیں، 2016 میں چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے دوران علاقے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے میں پولیس کی ناکامی کے بعد فوج کو طلب کیا گیا تھا۔

آئی جی پی نے اس سوال سے اتفاق نہیں کیا کہ ماضی میں علاقے میں پولیس کے اصل آپریشنز گندم کی کٹائی کے دوران کیے گئے تھے اور علاقے میں تعینات یا گشت کرنے والے اہلکاروں نے گندم کی بڑی مقدار ہتھیا لی تھی۔

جھانسے میں آنا

گینگسٹرز نے گزشتہ دو برسوں میں اغوا کی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے، وہ اب اپنے ممکنہ ہدف کو فون کرتے ہیں اور انہیں لڑکیوں کے ذریعے شادی کی پیش کش کرتے ہیں۔

جرائم پیشہ افراد نے یہ طریقہ پورے پنجاب پر آزمایا اور متعدد واقعات میں متاثرین کا تعلق پشاور سے تھا۔

رپورٹ کے مطابق چند کیسز میں وہ لوگوں کو ٹریکٹرز، کار اور موٹرسائیکل سستے داموں استعمال کرنے کا جھانسہ دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں