بھارت کی آبادی رواں برس چین سے 29 لاکھ زیادہ ہونے کا امکان

19 اپريل 2023
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 2011 سے اوسطاً 1.2 فیصد رہی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 2011 سے اوسطاً 1.2 فیصد رہی ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

بھارت دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک بننے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کی رواں برس کے وسط تک چین سے 29 لاکھ زیادہ آبادی ہوگی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی عالمی آبادی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت کی آبادی کا تخمینہ ایک ارب 42 کروڑ 86 لاکھ افراد لگایا گیا ہے جبکہ چین کی آبادی ایک ارب 42 کروڑ 57 لاکھ رہنے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا بڑے فرق کے ساتھ تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہوگا، جس کی آبادی فروری 2023 تک دستیاب معلومات کے مطابق 34 کروڑ ہے۔

اقوام متحدہ کے سابقہ اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے آبادی کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ بھارت اس ماہ چین سے آگے نکل جائے گا لیکن تازہ رپورٹ میں اس کی تاریخ کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔

اقوام متحدہ کے آبادی کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بھارت اور چین سے آنے والے اعداد و شمار کے بارے میں ’غیر یقینی صورتحال‘ کی وجہ سے تاریخ بتانا ممکن نہیں ہے، خاص طور پر بھارت میں آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی اور 2021 میں ہونے والی اگلی مردم شماری عالمی وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔

اگرچہ بھارت اور چین کا 8 ارب ساڑھے چار کروڑ کی عالمی آبادی میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے لیکن دونوں ایشیائی ممالک میں آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی ہورہی ہے تاہم چین میں زیادہ کمی ہوئی ہے۔

چین کی آبادی میں گزشتہ 6 دہائیوں میں پہلی بار کم ہوئی، سال 2022 کے اختتام تک چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد ریکارڈ کی گئی جو کہ 2021 کے مقابلے میں ساڑھے 8 لاکھ کم ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 2011 سے اوسطاً 1.2 فیصد رہی ہے، جو اس سے قبل گزشتہ 10 سال میں 1.7 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

بھارت میں یو این ایف پی اے کے نمائندے اینڈریا وجنار نے بتایا کہ بھارت میں سروے کے نتیجے سے ظاہر ہوا ہے کہ آبادی کے حوالے سے ملک کے زیادہ تر لوگ پریشان ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آبادی کے اندازے کی وجہ سے بے چینی یا خطرے کی گھنٹی نہیں بجنی چاہیے بلکہ اگر انفرادی حقوق اور انتخاب کو برقرار رکھا جا رہا ہو تو انہیں ترقی اور خواہشات کی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں