گزشتہ 6 دہائیوں میں پہلی بار چین کی آبادی میں کمی

18 جنوری 2023
اس سے قبل آخری مرتبہ چین کی آبادی میں کمی سنہ 1960 میں دیکھی گئی  تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
اس سے قبل آخری مرتبہ چین کی آبادی میں کمی سنہ 1960 میں دیکھی گئی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

چین کی آبادی میں گزشتہ 6 دہائیوں میں پہلی بار کم ہوئی ہے، سال 2022 کے اختتام تک چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد ریکارڈ کی گئی جو کہ 2021 کے مقابلے میں ساڑھے 8 لاکھ کم ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق چین کی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی میں شرح پیدائش میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی، تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں معاشی ترقی اور اخراجات پر بوجھ بڑھے گا۔

قومی ادارہ شماریات کے مطابق سنہ 2022 کے آخر میں چین کی آبادی ایک ارب 41 کروڑ 17 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2021 سے اب تک 8 لاکھ 50 ہزار کم ہوگئی ہے۔

اس کے علاوہ سال 2022 کے اختتام تک چین بھر میں 95 لاکھ 60 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی جبکہ ایک کروڑ 4 لاکھ سے زیادہ شہری چل بسے۔

اس سے قبل آخری مرتبہ چین کی آبادی میں کمی سنہ 1960 میں دیکھی گئی تھی۔

چین نے آبادی میں اضافے کے خطرہ کے باعث سنہ 1980 میں ون چائلڈ پالیسی یعنی ایک بچہ پالیسی لاگو کی تھی اس پالیسی کو 2016 میں ختم کر دیا گیا تھا اور سنہ 2021 میں شادی شدہ جوڑوں کو 3 بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

پن پوائنٹ ایسٹ مینجمنٹ ژیونگ ژانگ نے بتایا کہ آئندہ سالوں میں ممکنہ طورپر آبادی میں مزید کمی آئے گی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو جاری کیے گئے شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنس کی جانب سے کی جانب سے مطالعہ کے مطابق چین کی آبادی میں سالانہ بنیادوں پر مجموعی طورپر 1.1 فیصد کمی آسکتی ہے۔

ماہر آبادیات کے مطابق سنہ 2100 میں چین کی آبادی 58 کروڑ 70 لاکھ لوگ رہ سکیں گے، جو چین کی آج کی آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق بھارت دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

’میں اپنی ماں سے پیار کرتی ہوں لیکن میں ماں نہیں بنوں گی‘

30 سالہ شنگھائی کی رہائشی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بچہ پیدا کرنے کے حوالے سے معاشرے کا بہت زیادہ دباؤ رہتا ہے، ملک کی موجودہ صورتحال میں کون بچہ پیدا کرنا چاہے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں بے روزگارہ کی شرح بہت زیادہ ہے، کورونا نے سب ختم کردیا ہے، کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو ہم کرسکیں، آئندہ سال ہمیں شرح پیدائش میں کمی لانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ والدین کی دیکھ بھال اور مستقبل میں زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہمارے اوپر بہت زیادہ دباؤ ہے۔

چین کی ٹوئٹر کی طرح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ویبو سروس میں ایک صارف نے لکھا کہ چین آبادی میں کمی کی خبر سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ پر ہے، بچوں کے بغیر ریاست اور قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ بچے ہونا بھی ایک سماجی ذمہ داری ہے۔

تاہم دیگر انٹرنیٹ صارفین نے چین میں جدید زمانے میں بچوں کی پرورش میں مشکلات کے حوالے سے بھی نشاندہی کی۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’میں اپنی ماں سے پیار کرتی ہوں لیکن میں ماں نہیں بننا چاہتی‘۔

پالیسی پیکج

آزاد ماہر آبادیات ہی یافو نے نشاندہی کی کہ شرح پیدائش میں کمی اور عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کی تعداد میں کمی آئی ہے جس میں سنہ 2016 سے 2021 کے دوران سالانہ بنیادوں پر 50 لاکھ کمی دیکھی گئی۔

دوسری جانب کئی مقامی حکام نے جوڑوں کو بچہ پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے طور پر متعدد تدابیر متعارف کرائیں، مثال کے طور پر چین کا میگا سٹی شینزین میں بچے کی 3 سال کی عمر تک جوڑے کو 10 ہزار یوآن (تقریباً ایک ہزار 500 ڈالر) برتھ بونس اور الاؤنس ادا کرنے کی آفر کی ہے۔

ایک اور شہر جینان میں یکم جنوری سے جن جوڑوں کے 2 بچے ہوں گے انہیں ماہانہ 600 یو آن اجرت دی جائے گی لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

محقق پینگ نے بتایا کہ بچوں کی پرورش کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی پیکج کی ضرورت ہے جو بچے کی پیدائش، والدین اور تعلیم کا احاطہ کرتا ہے، پیدائش کے بعد خواتین کی ملازمت کے عدم تحفظ کو خاص طور پر حل کیا جانا چاہئے۔

پینگ نے کہا کہ آبادی میں کمی اور عمر رسیدہ افراد میں اضافہ چین کے لیے ایک تشویش ناک صورتحال ہوگی اس سے آگے چل کر سنہ 2100 تک چین کی معیشت پر گہرا اثر پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں