باجوڑ: پولیس میں خواتین کی بھرتی، فرسودہ روایات اور سہولیات کا فقدان رکاوٹ

اپ ڈیٹ 26 اپريل 2023
2 ہزار 800 اہلکاروں پر مشتمل باجوڑ پولیس میں کوئی مقامی خاتون شامل نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
2 ہزار 800 اہلکاروں پر مشتمل باجوڑ پولیس میں کوئی مقامی خاتون شامل نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

باجوڑ کے محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی میں قدامت پسند رسم و رواج اور رہائش کی مناسب سہولیات کا فقدان رکاوٹ بن گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ خواتین کے درپیش مسائل سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے پولیس میں خواتین بھرتی کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کے قوانین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ مرد پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی بھرتی کیا جائے، تاہم 2 ہزار 800 اہلکاروں پر مشتمل باجوڑ پولیس میں کوئی مقامی خاتون شامل نہیں ہے۔

حالانکہ 25ویں آئینی ترمیم کے مطابق مئی 2018 میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اپریل 2019 میں پولیس کا نظام قبائلی اضلاع تک بڑھا دیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ باقی ضم شدہ اضلاع کی طرح باجوڑ میں بھی 30 خواتین پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے گا، اس مقصد کے لیے خیبرپختونخوا پولیس نے قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں خواتین سے ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایویلیوایشن ایجنسی (ای ٹی ای اے) کے ذریعے لیڈی پولیس کانسٹیبل کے عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں لیکن کسی خاتون نے درخواست جمع نہیں کروائی۔

ذرائع نے بتایا کہ تقریباً 6 ماہ کے وقفے کے بعد صوبائی محکمہ پولیس نے اس امید کے ساتھ دوبارہ یہی اشتہار دیا کہ شاید اب خواتین درخواست دیں گی لیکن اس بار بھی کسی خاتون نے درخواست جمع نہیں کروائی۔

ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد محکمہ پولیس نے اس پوسٹ کا دوبارہ اشتہار دیا اور عمر کی حد اور اہلیت وغیرہ میں بھی نرمی کی گئی تاکہ خواتین کو اس عہدے کے لیے درخواست دینے کی ترغیب دی جاسکے لیکن پھر بھی کسی خاتون نے درخواست جمع نہیں کروائی۔

ذرائع کے مطابق قدامت پسند روایات محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ یہ روایات مردانہ بالادستی والے ماحول میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

تاہم پولیس کے کچھ ذرائع اور مقامی رہائشیوں نے محکمہ پولیس میں خواتین کی عدم دلچسپی کا ذمہ دار رہائش کی نامناسب سہولیات کو ٹھہرایا۔

مقامی قصبے کے رہائشی غلام حضرت نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی نے گزشتہ سال میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کانسٹیبل کے عہدے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ مقامی پولیس میں خواتین اہلکاروں کے لیے رہائش کی ناقص سہولیات ہیں تو اسے شدید مایوسی ہوئی۔

رابطہ کرنے پر ایک سینیئر پولیس افسر نے تصدیق کی کہ مقامی خواتین نامعلوم وجوہات کی بناپر پولیس میں ملازمتوں میں دلچسپی نہیں لے رہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت باجوڑ پولیس میں 10 لیڈی پولیس کانسٹیبلز خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جو غیرمقامی ہیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نذیر خان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ خواتین مستقبل میں محکمہ پولیس میں ملازمتوں میں دلچسپی ظاہر کریں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں