ترسیلات زر اپریل میں 29 فیصد گر گئیں

11 مئ 2023
کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ اورسیز پاکستانیوں کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجے گئے ایک ڈالر پر 27 سے 28 روپے زیادہ ملتے ہیں—فوٹو: اسٹیٹ بینک
کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ اورسیز پاکستانیوں کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجے گئے ایک ڈالر پر 27 سے 28 روپے زیادہ ملتے ہیں—فوٹو: اسٹیٹ بینک

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اپریل میں بھیجی گئی ترسیلات زرگزشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں 29.2 فیصد گر گئیں جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 مہینوں کے دوران ترسیلات زر میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ کیا کہ اپریل میں 2 ارب 21 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جبکہ اپریل 2022 میں 3 ارب 12 کروڑ ڈالر بھیجے گئے تھے، یہ 29.2 فیصد کمی ہے، اسی طرح گزشتہ مہینے مارچ کے مقابلے میں ترسیلات زر میں 12.8 فیصد تنزلی ہوئی، جب 2 ارب 53 کروڑ ڈالر ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔

اپریل میں ترسیلات زر میں کمی سے ماہرین کو مایوسی ہوئی ہے جو رمضان کی وجہ سے بہتر رقم کی آمد کی توقع کررہے تھے۔

رمضان کے مقدس مہینے میں عام طور پر 15 سے 20 فیصد زیادہ ترسیلات زر موصول ہوتی ہیں لیکن کم آمد حیران کن ہے خاص طور پر اُس وقت جب پاکستان کو دیوالیہ جیسی صورتحال سے نکلنے کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے۔

مالی سال 2023 میں جولائی تا اپریل کے دوران ترسیلات زر 13 فیصد یا 3 ارب 40 کروڑ ڈالر گر کر 22 ارب 74 کروڑ ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 26 ارب 14 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔

3 ارب 40 کروڑ ڈالر کی رقم اس سے بہت زیادہ ہے جو پاکستان تمام پیشگی شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے گزشتہ 8 مہینوں سے لینے کی جدوجہد کررہا ہے، تاہم اب تک عالمی مالیاتی ادارے نے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط جاری نہیں کی ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں سیاسی بحران مزید گہرا ہو گیا ہے جس کے سبب آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے، تحقیق کاروں اور مالیاتی شعبے کے ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک پی ڈی ایم حکومت سے سیاسی استحکام کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ عالمی برادری کا اعتماد بحال ہوسکے اور وہ معیشت کو درست سمت کی جانب راغب کرنے میں مدد کرسکیں۔

مستقل عدم استحکام نے ملک بھر میں تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں رواں مالی سال میں معیشت کی بمشکل 0.5 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ 5 ارب 40 کروڑ ڈالر سعودی عرب سے موصول ہوئے جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 6 ارب 53 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر آئی تھیں، یہ 17.3 فیصد یا ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی تنزلی ہے۔

3 ارب 98 ترسیلات زرکے ساتھ متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر رہا لیکن اس میں بھی 18.8 فیصد یا 92 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

برطانیہ سے موصول ہونے والی ترسیلات زر 7.2 فیصد کمی کے بعد 3 ارب 41 کروڑ ڈالر رہیں۔

امریکا سے آنے والی ترسیلات زر مالی سال کے ابتدائی 10 مہینے میں 0.2 فیصد معمولی اضافے کے بعد 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں۔

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ممالک سے ابتدائی 10 مہینے کے دوران ترسیلات زر میں 12 فیصد کمی ہوئی، جو گزشتہ برس کے 3 ارب 2 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 2 ارب 66 کروڑ ڈالر رہیں، یورپی یوین سے بھی ترسیلات 7.7 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 59 کروڑ ڈالر موصول ہوئیں۔

کرنسی ڈیلرز نے بتایا کہ ملک کو ترسیلات زر کی مد میں 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی وجہ سے حوالہ ہنڈی (گرے مارکیٹ) ہے، درآمدکنندگان خام مال کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے سے قاصر ہیں، لہٰذا انہیں زیادہ قیمت کے باوجود گرے مارکیٹ سے ڈالر خریدنے پڑتے ہیں، گرے مارکیٹ میں ڈالر تیزی سے اضافے کے بعد بدھ کو 320 تک پہنچ گیا، جو ایک دن قبل 310 روپے کا تھا۔

کرنسی ڈیلرز کا مزید کہنا تھا کہ اورسیز پاکستانیوں کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجے گئے ایک ڈالر پر 27 سے 28 روپے زیادہ ملتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں