اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر ایک مرتبہ پھر 300 روپے سے متجاوز

اپ ڈیٹ 18 مئ 2023
اپریل میں ملک کو صرف 2 ارب 20 کروڑ ڈالر موصول ہوئے— فائل فوٹو: رائٹرز
اپریل میں ملک کو صرف 2 ارب 20 کروڑ ڈالر موصول ہوئے— فائل فوٹو: رائٹرز

اوپن مارکیٹ میں ڈالر نے ایک بار پھر 300 روپے کی حد عبور کرلی جس سے انٹربینک مارکیٹ کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں 14 روپے سے زیادہ کا فرق ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ ڈالرز کی کمی ہے تاہم دیگر عوامل نے بھی اوپن مارکیٹ میں شرح تبادلہ کو متاثر کیا۔

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 301 روپے تک پہنچ گئی جبکہ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بند ہونے کی قیمت 299.70 روپے بتائی جو کہ بدھ کو انٹربینک میں ڈالر کے ریٹ 285.40 روپے سے 14.30 روپے زیادہ تھی۔

منگل کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے روپیہ مستحکم رہا اور 284.96 پر بند ہوا۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہے اور یہ کراچی کے مقابلے ملک کے دیگر حصوں میں زیادہ سنگین ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ کے نرخ بڑھ رہے ہیں کیونکہ بینک دبئی میں دیگر غیر ملکی کرنسیوں کو ڈالر میں تبدیل کرنے کے بعد بینکنگ چینلز کے ذریعے ایکسچینج کمپنیوں کے درآمد کردہ ڈالر ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آج بینکوں نے کراچی میں کچھ نقد ڈالر فراہم کیے لیکن ملک کے دیگر حصوں میں کرنسی ڈیلروں کو ڈالر نہیں مل سکے، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمتیں غیر متوقع طور پر بلند ہو گئیں۔‘

اسٹیٹ بینک آف پاکستان محدود وسائل کے ساتھ زر مبادلہ کی شرح کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 40 کروڑ ڈالر ہیں۔

حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی زیر التوا قسط جاری کرنے پر راضی کرنے میں تاحال ناکام ہے جب کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کی شکل میں آمد بھی کم ہو رہی ہے۔

زیادہ تر کرنسی ڈیلرز نے شکایت کی ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ جاری سیاسی بحران ہے۔

ان کا خیال ہے کہ اگر یہ بحران جاری رہا تو ڈالر کی قدر میں اضافے کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔

ملک بوستان نے کہا کہ ترسیلات زر بھی 23-2022 میں جولائی تا اپریل کے دوران 29 فیصد یا 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کم ہو کر 22 ارب 74 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہ گئی ہیں جو کہ 26 ارب 14 کروڑ ڈالر تھی جس کی وجہ حوالہ مارکیٹ (گرے مارکیٹ) کی جانب سے پیش کی جانے والی بہت زیادہ شرح ہے۔

اپریل میں ملک کو صرف 2 ارب 20 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جب کہ رمضان کے مقدس مہینے میں روایتی طور پر زیادہ آمد کی وجہ سے مارکیٹ 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی توقع کر رہی تھی۔

ملک بوستان نے کہا کہ ’پاکستان سے حج پروازوں کے آغاز سے سعودی ریال کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی کرنسی کی انتہائی محدود دستیابی کی وجہ سے دبئی کو کرنسیوں کی برآمدات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس کے نتیجے میں دبئی سے غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی درآمدات کا حجم کم ہوا ہے، جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی قلت بڑھ گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں