شیریں مزاری گرفتاری کیس: ’حکومت کی کوشش ہے کہ عدالتی رٹ کو شکست دی جائے‘

اپ ڈیٹ 19 مئ 2023
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات برقرار رہیں گے— تصویر: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات برقرار رہیں گے— تصویر: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق کیس میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ عدالتی رٹ کو شکست دی جائے، آئینی عدالت کے خلاف ایک مہم لانچ کردی گئی ہے۔

اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف فریقین کے خلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈاکٹر شیریں مزاری کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی، انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ان کیسز پر عدالت کو کچھ تحفظات ہیں، عدالت کی رٹ اس ملک کا وقار ہے، آئینی عدالت کے خلاف ایک مہم لانچ کی گئی ہے، ہم ججز ٹاک شو نہیں کرسکتے، وہاں بیٹھ کر بات نہیں کرسکتے۔

سماعت میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیا وجہ ہے آئینی ادارے کے احکامات کو ہوا میں اڑایا جا رہا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی یہ معاملہ ملک کے لیے اعلیٰ اتھارٹی کے سامنے رکھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ملک آئین کے تحت ہی چلنا ہے، عدالتوں نے آئین کے تحت ہی اور آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے جذباتی ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات برقرار رہیں گے، ہم یہاں خدمت کے لیے بیٹھے ہیں، حکومت کی کوشش ہے کہ عدالتی رٹ کو شکست دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں سولائیزڈ ملک ہے، کورٹ کے آرڈر کے ساتھ جو ہو رہا وہ یہ بات ثابت نہیں کرتا، جو پرتشدد واقعات ہوئے ان کو کوئی جسٹیفائی نہیں کرسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم جمہوریت میں رہ رہے ہیں، ہم اس مہم سے بھی واقف ہیں جو آئینی عدالتوں کے خلاف جاری ہے، جو بھی ہوا وہ پاکستان کے سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس پر روسٹرم پر کھڑے وکلا بول پڑے اور کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ پنجاب پولیس، ڈائریکٹ اسلام آباد سے کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی، بادی النظر میں اسلام آباد پولیس خود کو اس معاملے سے الگ نہیں کر سکتی۔

جج نے استفسار کیا کہ عدالت نے گرفتاری سے روکا ہوا تھا تو کیا پنجاب پولیس کو اسلام آباد پولیس نے بلایا تھا؟

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا۔

عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے حوالے کیوں کیا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر تک آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو نقص امن کے خطرے کے پیشِ نظر حراست میں لے لیا گیا تھا جن میں شیریں مزاری بھی شامل تھیں۔

تاہم 16 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر انسانی حقوق و رہنما پاکستان تحریک انصاف شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں اسی رات ان کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے بتایا کہ ان کی والدہ کو اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرکے ڈپلومیٹک انکلیو منتقل کردیا گیا۔

اسد عمر کے خلاف کیسز کی تفصیلات طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسد عمر کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری اور مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر رہنما پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی جس میں بابر اعوان نے استدعا کی کہ اسد عمر کے خلاف کتنے مقدمات ہیں ان کی تفصیلات فراہم کی جائے۔

وکیل اسد عمر نے کہا کہ عدالت ہمارے کیسز پیر کو سماعت کے لیے مقرر کردے، جس پر جج نے دریافت کیا کہ کیا آپ ادھر اپنا ویک اینڈ انجوائے کرنا چاہتے ہیں ؟

جس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ اسد عمر کے خلاف کتنے مقدمات درج ہیں پولیس تفصیلات فراہم کرے اور فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں