9 مئی واقعات: گرفتاریاں جاری، صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف لاہور پریس کلب کا عدالت سے رجوع

23 مئ 2023
صدر لاہور پریس کلب نے بتایا کہ یہ صحافی 9 مئی کو شہر کے مختلف مقامات پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
صدر لاہور پریس کلب نے بتایا کہ یہ صحافی 9 مئی کو شہر کے مختلف مقامات پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور پریس کلب کا کہنا ہے کہ اس نے تقریباً 197 صحافیوں اور مختلف نیوز چینلز کی ڈی ایس این جی وین کے عملے کی فہرست مرتب کی ہے جنہیں پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے بتایا کہ یہ صحافی 9 مئی کو شہر کے مختلف مقامات بشمول لبرٹی چوک، زمان پارک اور کنٹونمنٹ میں جناح ہاؤس کے باہر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، پولیس نے ان صحافیوں کے نام اُن مبینہ دہشت گردوں اور مشتبہ افراد کی فہرست میں ڈال دیے جو فوجی تنصیبات، پولیس وین اور نجی عمارتوں پر حملوں میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے صحافیوں کی تعداد گزشتہ روز بڑھ کر 250 ہوگئی کیونکہ مزید کئی صحافی پولیس کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات لے کر پریس کلب پہنچے۔

اعظم چوہدری نے کہا کہ پریشان کن صورتحال کے بعد میں نے پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر سے بات کی جنہوں نے یہ معاملہ وزیر اعلیٰ کے سامنے اٹھایا، وزیراعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ پنجاب نے پنجاب جرنلسٹس پروٹیکشن کوآرڈینیشن کمیٹی کے نام سے 8 رکنی کمیٹی کا نوٹیفکیشن کر دیا۔

مذکورہ کمیٹی کے اراکین میں پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی (لیگل)، لاہور پریس کلب کے صدور، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، وزارت اطلاعات و نشریات کے نمائندے وغیرہ شامل ہیں۔

اعظم چوہدری نے کہا کہ ان اقدامات کے باوجود، پولیس نے مزید صحافیوں کو گرفتار کیا اور ان پر تشدد کیا، لاہور پولیس نے ایک میڈیا ورکر (ایک ٹی وی چینل کے کیمرہ مین) کے والد اور ایک دوسرے میڈیا ورکر کے بھائی کو بھی اٹھالیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ورکنگ جرنلسٹس کے خلاف پولیس کی جارحیت کی 6 سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں جن کا 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، پولیس کے اس رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی ہے ۔

دوسری جانب پولیس کے چھاپوں سے بچنے کے لیے گھروں سے فرار پی ٹی آئی کے متعدد مطلوب کارکنوں کے رشتہ دار خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے اپنے گھروں پر تالے ڈال دیے ہیں اور وہ ضروری سامان خریدنے کے لیے بھی گھروں سے باہر نہیں نکل پارہے۔

دریں اثنا آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ تمام فیلڈ پولیس فارمیشنز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ کارروائی کو 9 مئی کے فسادات میں ملوث مشتبہ حملہ آوروں تک محدود رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں درج مقدمات میں غیرمطلوب صحافیوں اور دیگر افراد کو ہراساں کیے جانے کی شکایات کے ازالے کے لیے پولیس افسران کو بھی خصوصی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا پنجاب پولیس اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے اور تذلیل کا نشانہ نہ بنایا جائے، ہمارا بنیادی مقصد فوجی تنصیبات اور دیگر عمارتوں پر حملہ کرنے والے شرپسندوں کو گرفتار کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں