معیشت کو سنگین مالی خدشات کا سامنا ہے، وزارت خزانہ

اپ ڈیٹ 31 مئ 2023
یہ خطرات توقع سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے سامنے آسکتے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
یہ خطرات توقع سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے سامنے آسکتے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے اختتام پر مالیاتی خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی کہ وجہ سے رواں ماہ مہنگائی کی 34 سے 36 فیصد بلند شرح نیچے آنا شروع ہو جائے گی جو روپے کی قدر میں کمی کے منفی اثرات کو زائل کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک میں کہا کہ مئی میں مہنگائی 34 سے 36 فیصد کی حد میں رہ سکتی ہے، رواں مالی سال کے اختتام تک مالیاتی شعبے کے لیے کچھ منفی خدشات موجود ہیں، یہ خطرات توقع سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے سامنے آسکتے ہیں جس کی بنیادی وجہ قرض کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافہ اور سیلاب کے بعد بحالی کی سرگرمیوں کے اخراجات ہیں۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ رواں مالی سال جولائی تا اپریل کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی محصولات کی وصولی میں 16.1 فیصد اضافہ ہوا، تاہم یہ ہدف سے کم رہا۔

معاشی سرگرمیوں میں سست روی اور درآمدات کو دبانا مذکورہ مدت کے دوران توقع سے کم ٹیکس ریونیو کی وضاحت کرتا ہے، ان مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کفایت شعاری اقدامات کے ذریعے غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنے اور ٹارگٹڈ سبسڈیز پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر ونگ نے قیمتوں میں اضافے کی ممکنہ وجوہات سیلاب سے ہونے والے نقصانات، سپلائی چین میں رکاوٹیں، معاشی عدم توازن اور سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کو قرار دیا۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ عالمی سطح پر سپلائی چین میں بہتری آنے والے مہینوں میں مقامی سطح پر قیمتوں کو کم کر دے گی، 2023 کی پہلی سہ ماہی میں اشیا کی عالمی قیمتوں میں 14 فیصد کمی ہوئی اور مارچ کے آخر تک یہ جون 2022 میں اپنی بلند ترین سطح سے تقریباً 30 فیصد کم ہوگئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اجناس کی مناسب قیمتوں کے پیش نظر روپے کی قدر میں کمی کے منفی اثرات دور ہونے کی توقع ہے، علاوہ ازیں فصل کی بہتر صورتحال یعنی کسان پیکج اور متوقع سیاسی استحکام جیسے بروقت اقدامات قیمتوں میں استحکام حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کی قیمتوں میں حالیہ کمی نقل و حمل کی لاگت کو کم کر کے ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی کا سبب بنے گی۔

پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں میں ’سائکلیکل پوزیشن‘ جنوری سے استحکام کے کچھ آثار دکھا رہی ہے، تاہم بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی سرگرمیاں رواں مالی سال کے آغاز سے اپنی قدرتی صلاحیت کی سطح سے نیچے ریکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ معیشت کے استحکام اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ضرورت سے زیادہ پالیسی اقدامات ہیں، سپلائی میں خلل، مہنگائی کے دباؤ سمیت دیگر منفی خطرات بدستور برقرار ہیں، جس کا اثر آنے والے مہینوں میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ پر پڑے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اشیا اور خدمات کا تجارتی خسارہ 10 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 45.4 فیصد کم ہوا جبکہ اپریل میں ماہانہ بنیادوں پر اس میں 12.5 فیصد اضافہ ہوا، تاہم حقیقی مؤثر شرح تبادلہ مستحکم ہوا ہے۔

بقیہ مہینوں کے لیے توقع ہے کہ برآمدات اور درآمدات کا وہی رجحان برقرار رہے گا جس کا رواں مالی سال کی دوسری ششماہی کے دوران مشاہدہ کیا گیا، ان تخمینوں نے اشیا اور خدمات میں تجارت کے بہتر توازن کو ظاہر کیا۔

ترسیلات زر میں ماہانہ بنیادوں پر 12.9 فیصد کمی واقع ہوئی اور عید الفطر سے جڑے عوامل کی وجہ سے مارچ میں ترسیلات زر میں اضافے کے بعد یہ معمول پر واپس آگیا، توقع ہے کہ عیدالاضحیٰ اور ملکی و بین الاقوامی ماحول میں بہتری کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا، دیگر تمام ثانوی اور بنیادی آمدنی کی ادائیگیوں اور رسیدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک پائیدار حد کے اندر رہنے کی توقع ہے۔

رواں مالی سال کے لیے 0.29 فیصد عارضی اقتصادی ترقی کی شرح کا مشاہدہ کرتے ہوئے رپورٹ میں اس کی وجہ بیرونی اور گھریلو اقتصادی ماحول سے پیدا ہونے والے بہت سے چیلنجز کو قرار دیا، روپے کی قدر میں کمی کے سبب مالیاتی سختی کے باوجود ان چیلنجز کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار تیز رہی۔

زرمبادلہ میں کمی کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں پر بھی بوجھ رہا، حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے دوران اختیار کیے گئے مالیاتی استحکام نے معاشی استحکام کو سہارا دیا۔

مذکورہ آؤٹ لک میں وزارت خزانہ کی جانب سے امید ظاہر کی گئی کہ خریف سیزن کے دوران زرعی سرگرمیوں کی بحالی سے معاشی نمو پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے، مجموعی طور پر مناسب پالیسیوں کی مدد سے خوشحالی، اقتصادی ترقی اور بہتر سپلائی چین کی توقع ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں