لاہور میں ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کیلئے زمین کے حصول کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 11 جون 2023
پروجیکٹ سے وابستہ ایل ڈی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے — فائل فوٹو: سید محمد ابوبکر
پروجیکٹ سے وابستہ ایل ڈی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے — فائل فوٹو: سید محمد ابوبکر

حکومت پنجاب نے لاہور کے بڑے اربن انفرااسٹرکچر پروجیکٹ ’گلبرگ-بابو صابو ایلیویٹڈ ایکسپریس وے‘ کے لیے زمین کے حصول کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ تعمیرات کے خلاف گلبرگ، شادمان، گلشن راوی اور دیگر علاقوں کے مکینوں کی جانب سے شدید مزاحمت کے بعد 2017 میں یہ عمل روک دیا گیا تھا، جبکہ اسے فنڈز کی کمی سمیت دیگر مسائل کا بھی سامنا تھا، اب اس منصوبے کی لاگت بھی 18 ارب روپے سے بڑھ کر 85 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

پروجیکٹ سے وابستہ ایل ڈی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ ’ہم نے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے جن کی زمین (زیادہ تر مکانات) کو 2016 میں لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت ایوارڈ لسٹ میں نشان زد کیا گیا تھا، ہم ان سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ایل ڈی اے کے دفاتر یا (محکمہ ریونیو کے) متعلقہ افسران سے ملاقات کریں اور اپنا معاوضہ وصول کرلیں جیسا کہ 2016 میں طے کیا گیا تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ (801 کنال) زمین کے حصول کا عمل 2016 میں شروع کیا گیا تھا اور حصول اراضی ایکٹ کے تحت فائنل ایوارڈ کا اعلان 2017 میں کیا گیا تھا، اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کو معاوضہ مل گیا تھا لیکن ان میں سے زیادہ تر نے اسے مسترد کر دیا، جن لوگوں نے معاوضہ وصول کیا تھا انہوں نے ابھی تک قبضہ حکومت کے حوالے نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں (زمینوں کے مالکان) نے جس پیکج کا مطالبہ کیا تھا وہ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے لیے زمین کے حصول کے متاثرین کو دیے گئے بھاری معاوضے جتنا تھا، اس میں مارکیٹ ریٹ کے مطابق جائیداد کی قیمت، ڈسٹربنس الاؤنس، ری لوکیشن الاؤنس وغیرہ شامل تھے لیکن حکومت نے ان کی درخواست پر غور نہیں کیا تاہم اس کے نتیجے میں حکومت کے پاس 2017 میں یہ منصوبہ بند کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہ گیا تھا۔

ان کے بقول اس منصوبے کو روکنے کی دیگر وجوہات میں پاناما کیس کا نتیجہ اور نیب کی جانب سے بیوروکریٹس کے خلاف فوجداری مقدمات تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے لاہور کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں متعدد منصوبوں پر عملدرآمد کو نظر انداز کیا۔

تاہم سال 2022 کے آغاز میں اس نے اِس اسکیم کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور بالآخر گزشتہ برس کی آخری سہ ماہی میں پرویز الہٰی کی زیر قیادت حکومت پنجاب نے اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کی منظوری دے دی، لیکن جلد ہی پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں 85 ارب روپے کے منصوبے کے نظرثانی شدہ پی سی-ون پر بات ہو رہی ہے، حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی لکھا ہے کہ اس منصوبے کو شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے، ہمیں زمین کے حصول کا عمل مکمل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، ہم نے متاثرین سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ معاوضہ لیں اور زمین کا قبضہ حکومت کو دیں اور وہ لوگ جنہوں نے پہلے ہی معاوضہ حاصل کر لیا ہے لیکن زمین کا قبضہ ہمارے حوالے نہیں کیا ہے، انہیں ایک مخصوص مدت کے اندر قبضہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔

دوسری جانب کمشنر لاہور/ ڈی جی ایل ڈی اے محمد علی رندھاوا نے بھی اس معاملے پر ایک اجلاس منعقد کیا اور متعلقہ افسران کو اس عمل کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے اس منصوبے کو لاہور کے لیے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایل ڈی اے میں ون ونڈو کاؤنٹر ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو اس زمین کا معاوضہ حاصل کرنے میں سہولت ملے جو وہ حکومت کے حوالے کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو لوگوں کو گلبرگ سے 8 سے 10 منٹ کے اندر اندر موٹروے تک سگنل فری رسائی حاصل ہو جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں