آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک بھارت میں کی جانے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ وہاں 10 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔

مذکورہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جہاں 10 کروڑ سے زائد لوگ ذیابیطس کا شکار بن چکے ہیں، وہیں 13 کروڑ سے زائد افراد ایسے ہی جو اگلے پانچ سال میں ذیابیطس کے مریض بن جائیں گے۔

طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں شائع تحقیق کے مطابق بھارتی طبی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ملک کی تمام ریاستوں میں کیے جانے والی طویل تحقیق میں حیران کن انکشافات سامنے آنے پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کردیا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھارت میں کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور موٹاپے میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تاہم وہاں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی بیماری ذیابیطس ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارت کی زیادہ تر ریاستوں کے دیہی اور شہری علاقوں میں یکساں طور پر ذیابیطس بڑھ رہا ہے اور زیادہ تر لوگ کئی کئی سال تک اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ انہیں ذیابیطس لاحق ہو چکا ہے۔

تحقیق کے دوران ماہرین نے متعدد ریاستوں سے ایک لاکھ 30 ہزار افراد کے نمونے لیے، ان کی عمریں 20 سال سے زائد تھیں اور 8 سال بعد فالو اپ کیا گیا تو اس میں سے بیتشر افراد مین ذیابیطس تائپ کو تشخیص ہو چکی تھی۔

ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اس وقت بھارت کی 11 فیصد آبادی یعنی 10 کروڑ 10 لاکھ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں جب کہ 15 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو اگلے پانچ سال میں اس بیماری کا شکار ہو جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق 13 کروڑ 60 لاکھ افراد ایسے ہیں جو اس وقت پری ڈائیبٹک ہیں یعنی اگر انہوں نے ابھی سے اپنا طرز زندگی تبدیل نہیں کیا اور ماہرین کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تو وہ بھی پانچ سال کے اندر ذیابیطس کے مریض بن جائیں گے۔

ماہرین نے بتایا کہ بھارت بھر میں آسانی سے دستیاب ہونے والے فاسٹ فوڈز کی دستیابی، تبدیل ہوتا طرز زندگی، کام کے اوقات کار میں تبدیلی، آلودگی، ڈپریشن، زیادہ دیر تک بیٹھنا اور مسلسل کام کرتے رہنا ذیابیطس بڑھنے کی چند بڑی وجوہات ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت کی چند ریاستوں جن میں گووا، کیرالہ اور پانڈچیری میں ذیابیطس سے بچاؤ کی ہدایات یا تدابیر پر عمل زیادہ کیا جاتا ہے اور وہاں بیماری سے حفاظت کی تدابیر اختیار کرنے کی شرح 26 فیصد تک ہے۔

ساتھ ہی بتایا گیا کہ اتر پردیش، مدھیا پردیش، ارونا چل اور بہار جیسی ریاستوں میں ذیابیطس سے بچاؤ کی تدابیر پر انتہائی کم عمل کیا جاتا ہے اور وہاں اس مرض کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں