ایک طرف حکومتِ سندھ ساحلی پٹی میں شدید سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر مقامی آبادی کا انخلا کرنے میں مصروف ہے لیکن دوسری طرف بے گھر ہونے والے متاثرین کا شکوہ ہے کہ انہیں بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں۔

حکومت سندھ نے طوفان کے خطرے کے پیش نظر ضلع سجاول، بدین اور ٹھٹہ سے تقریباً 80 ہزار لوگوں کے انخلا کا منصوبہ بنایا ہے جن میں سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں قریبی شہروں میں قائم عارضی کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے لیکن متاثرین کی شکایات ہیں کہ انہیں خوراک، پانی یا دیگر سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

جاتی میں متاثرین کے لیے قائم کی گئی کیمپ: فوٹو:میر کیریو
جاتی میں متاثرین کے لیے قائم کی گئی کیمپ: فوٹو:میر کیریو

تحصیل جاتی کے گاؤں غلام حسین بوہڑی کے رہائشی نور محمد نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں گزشتہ رات جاتی کے قریب سمندری حدود کے گاؤں سے لایا گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی سرکاری امداد فراہم نہیں کی گئی۔‘

جاتی تحصیل کے سرکاری اسکول میں قائم عارضی کیمپ میں مقیم نور محمد نے کہا کہ ’شام 4 بجے ہمیں کہا گیا کہ گاؤں خالی کریں، انتہائی خطرناک طوفان آرہا ہے، ہمارے ذہن میں 1999 کے سمندری طوفان کا طاری تھا جس کی وجہ سے ہم وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔‘

عصر کے وقت انتہائی خوف کی حالت میں اپنے علاقے سے بے گھر ہونے والے پانچ بچوں کے والد نے بے بسی کے عالم میں بتایا کہ ابھی تک ہمیں حکومت کی طرف سے کچھ نہیں ملا، معصوم بچوں نے کھانا تک نہیں کھایا، حکومتی عہدیدار آتے ہیں، پوچھ کر چلے جاتے اور پھر واپس نہیں آتے۔

جاتی کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو انخلا کیا گیا ہے: فوٹو میر کیریو
جاتی کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو انخلا کیا گیا ہے: فوٹو میر کیریو

مچھلی کا شکار کرکے پیٹ پالنے والے نور محمد نے کہا کہ صرف ہمارے گاؤں کے ایک سو سے زائد لوگ کیمپ میں موجود ہیں لیکن حکومت صرف انتظار کروا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عارضی کیمپ میں بجلی کی سہولت نہیں، ایک واش روم ہے جبکہ سیکڑوں لوگ موجود ہیں۔

تحصیل جاتی کے گاؤں حاجی جموں کی رہائشی نور بانو نے بتایا کہ انہیں آج صبح گاؤں سے لایا گیا ہے کیونکہ ان کا گاؤں سمندر کے بالکل قریب ہے لیکن عارضی کیمپ میں آنے کے بعد بھی انہیں کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

پانچ بچوں کی والدہ نور بانو نے کہا کہ ہمارے خاندان کے 8 افراد کیمپ میں موجود ہیں، یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا انتظام ہے۔

اسی طرح کیٹی بندر کے سمندری علاقے سے گھوڑا باری تحصیل کے پرائمری اسکول میں منتقل کیے گئے نور احمد ناہیو نے بتایا کہ ہمیں دوپہر کے وقت اپنے گاؤں سے زبردستی یہاں منتقل کیا گیا ہے مگر کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ’30 لوگوں پر مشتمل اہل خانہ کو کیٹی بندر سے لاکر کیمپ میں رکھا گیا ہے مگر حکومت کی طرف سے کسی کو بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی، پانی ہے نہ بجلی اور نہ دیگر سہولیات، اس سے بہتر تھا کہ ہم اپنے گاؤں میں ہی رکتے۔

اسسٹنٹ کمشنر جاتی محمد عمران نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ تحصیل جاتی میں 9 کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور مختلف علاقوں سے تقریباً 7 ہزار افراد کو مختلف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ لوگوں کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں: فوٹو: محمد عمران
اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ لوگوں کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں: فوٹو: محمد عمران

محمد عمران نے بتایا کہ ساحلی پٹی سے بے گھر ہونے والے افراد کو خوراک، ادویات سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور حکومت کی طرف سے تمام وسائل بروئے کار لاکر لوگوں کی تکالیف دور کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انخلا کا عمل ابھی تک جاری ہے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بحیرہ عرب میں موجود سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ اب کراچی سے 470 کلو میٹر دور موجود ہے، شہر قائد میں تیز اور گرد آلود ہوائیں چل رہی ہیں جبکہ آج سے ساحلی علاقوں میں بارشوں کی توقع ہے، جہاں سے لوگوں کے انخلا کا عمل بھی جاری ہے۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری تازہ ایڈوائزری کے مطابق یہ طوفان کراچی سے 470 کلومیٹر دور، ٹھٹہ سے 460کلومیٹر اور اورماڑہ سے 570 کلومیٹر دور موجود ہے۔

’ریڈیو پاکستان‘ کے مطابق این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان بائپر جوائے کمزور ہو کر کیٹیگری 3 کے ’انتہائی شدید سمندری طوفان‘ میں تبدیل ہو گیا ہے، طوفان کی سطح پر ہوا چلنے کی رفتار تقریباً 140 سے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ اس کے مرکز کے گرد یہ رفتار 170 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔

محکمہ موسمیات نے مزید بتایا کہ بائپر جوائے کل صبح تک مزید شمال کی جانب بڑھے گا جس کے بعد اس کا رخ شمال مشرق کی جانب ہوجائے گا، 15 جون کی سہہ پہر طوفان سندھ کے علاقے کیٹی بندر اور بھارتی گجرات سے ٹکرائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں