’بائپر جوائے‘ کراچی سے تقریباً 310 کلومیٹر دور، آج کیٹی بندر سے ٹکرانے کا امکان

— فوٹو: میر کیریو
— فوٹو: میر کیریو
گزشتہ روز شام تک کُل 56 ہزار 985 افراد کو محفوظ مقام منتقل کردیا گیا — فوٹو: رائٹرز
گزشتہ روز شام تک کُل 56 ہزار 985 افراد کو محفوظ مقام منتقل کردیا گیا — فوٹو: رائٹرز

بحیرہ عرب میں موجود سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ آج بروز جمعرات کو کسی وقت سندھ میں کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیان خشکی سے ٹکرائے گا، تیز ہوائیں، بارش اور اونچی لہریں طوفان کے نزدیک آنے کی اطلاع دے رہی ہیں۔

بدھ کی رات 9 بج کر 30 منٹ کے قریب پاکستان کے محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین الرٹ میں کہا گیا کہ یہ طوفان کراچی کے جنوب مغرب میں تقریباً 310 کلومیٹر ، ٹھٹھہ سے 300 کلومیٹر اور کیٹی بندر سے 240 کلومیٹر فاصلے پر تھا۔

الرٹ میں کہا گیا کہ سطح پر 150سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ اور سسٹم سینٹر کے ارد گرد 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں جب کہ سمندری حالات کے باعث سسٹم سینٹر کے ارد گرد زیادہ سے زیادہ لہروں کی اونچائی 30 فٹ ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ انتہائی شدت کے طوفان نے شمال مشرق کی جانب مڑنا شروع کر دیا ہے، 15 جون کی شام کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے ساحل کے درمیان سے اس کے گزرنے کی توقع ہے جب کہ اس دوران سو سے 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 14 سے 17 جون کے دوران سندھ کے اضلاع ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میرپورخاص اور عمرکوٹ میں آندھی، گرد آلود ہواؤؤں اور گرج چمک کے موسلادھار بارشوں کا امکان ہے، ان علاقوں میں 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چل سکتی ہیں۔

الرٹ کے مطابق اسی طرح 14 سے 16 جون تک کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، شہید بینظیر آباد اور سانگھڑ کے اضلاع میں 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز اور گرد آلود ہوائیں چلنے کے ساتھ بارشوں کا امکان ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان کے حب اور لسبیلہ اضلاع میں بھی اس دوران گرد آلود ہواؤؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہوسکتی ہیں۔

شہباز شریف نے ممکنہ ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے کمیٹی قائم کردی

وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت جاری کی ہے کہ ساحلی علاقوں میں رہنے والے 50 ہزار سے زائد لوگوں کو حفاظتی مقامات تک پہنچایا جائے، اور ان کو پینے کا صاف پانی اور خوراک کے ساتھ ساتھ طوفان ٹلنے تک آرام دہ رہائش اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بائپر جوائے سے پیدا ہونے والی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے وزیرِ موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی میں متعلقہ وفاقی وزراء اور وفاقی و صوبائی اداروں کے نمائندے شامل ہیں جو مسلسل اس طوفان کی نگرانی کرکے کسی بھی صورتحال سے نبٹنے کے لیے 24 گھنٹے رابطے بحال رکھیں گے۔

وزارت توانائی کا لوڈ شیڈنگ میں عارضی اضافے کا اعتراف

وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ سمندری طوفان بپر جوائے سے ملک میں آر ایل این جی کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا ہے، آر آیل این جی سے بجلی کی پیداوار میں عارضی کمی اور لوڈ شیڈنگ میں عارضی اضافہ ہوا ہے۔

وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ ہم کراچی کے شہریوں کو معمول کی فراہمی برقرار رکھنے کے لئے کراچی الیکٹرک کو ایندھن کی مکمل فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندری طوفا ن بپر جوائے سے ابھی تک بجلی کی ترسیل میں کوئی خلل نہیں آیا، ٹھٹھہ بدین اور دیگر علاقوں میں تیز ہواؤں کا سلسلہ ہے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ سیکریٹری پاور ڈویژن کے ساتھ دیگر تین سینئر افسران کو سندھ بھجوایا جارہا ہے، طوفان سے متاثرہ علاقہ حیسکو کے علاقے میں ہے، طوفان سے نمٹنے کیلئے دیگر کمپینوں سے ٹیمیں بجھوا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ،گوجرانوالہ فیصل آباد ملتان،اور سکھر سے ٹیمیں پہنچیں گی، 2 ہزار افراد پر مشتمل بجلی نظام میں بہتری کیلئے اہلکار بھیج رہے ہیں، 2 ہزار اہلکاروں کا بھیجا جانا ایک قومی کاوش ہے، سیلاب کے دوران بھی پاور ڈویژن نے بہترین کام کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اندازہ نہیں ہے کہ اس طوفان کے اثرات کیا ہوں گے، طوفان سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہم پوری طرح تیار ہیں، ابھی تک طوفان سے ایل این جی کی سپلائی میں خلل آیا ہے، ایل این جی سپلائی میں خلل سے پاور پلانٹس کو گیس فراہمی رک گئی ہے، گیس کی سپلائی کیلئے متبادل کا انتظام بھی کیا گیا، کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی کیلئے انتظام کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس سپلائی میں خلل سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ایک گھنٹے کا اضافہ ہو گا، طوفان سے ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا چار روز تک ہو سکتا ہے، بعض علاقوں میں شاید ہمیں انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے بجلی بند کرنا پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر نوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زائد ہوا ہو گی تو ونڈ سے پیداوار کم ہوگی، یہ سب کچھ ابھی تک ممکنات میں سے ہےفی الحال تک براہ راست کوئی ایسی صورتحال ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ایل این جی نہ ہونے کے باعث اثر پڑتا ہے تو پندرہ سو میگاواٹ کا شاٹ فال آتا، کراچی کو اب گیس فراہم کی ہے تو شاید اثر پڑے گا، ہماری کوشش تھی موسم گرم میں لوڈشیڈنگ کم سے کم ہو، کوشش بھی ہے کہ موسم گرما میں شہری علاقوں میں چار گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ نہ ہو۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ صارفین پر بوجھ کم سے کم پڑے، ملک میں بجلی کی پیداوار 41 ہزار میگاواٹ تک ہےچونکہ بیشتر کارخانے مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں تو کوشش ہے متبادل اور سستے نظام پر جائیں۔

سمندری طوفان کے اثرات کراچی کو متاثر کرسکتے ہیں، شیری رحمٰن

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ سینیٹر شیری رحمٰن اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے سمندری طوفان بائپر جوائے کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں منعقدہ جائزہ اجلاسوں کے بعد میڈیا کو بریفنگ دی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے ان کی سربراہی میں سمندری طوفان بائپر جوائے کی مانیٹرنگ کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، طوفان سے منسلک خطرات بدستور برقرار ہیں اور اس کے مطابق تمام اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بائپر جوائے کی نوعیت انتہائی شدید طوفان کی ہے جس کی سطح پر ہوائوں کی رفتار 150 سے 160 کلومیٹر ہے جبکہ اس کے مرکز میں 180 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان کا کراچی سے فاصلہ بڑھ گیا ہے اور کیٹی بندر سے کم ہو گیا ہے، طوفان کراچی سے 370 کلومیٹر اور کیٹی بندر سے 290 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے اور یہ جس راستے کی پیشگوئی کی گئی تھی اسی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کل جمعرات کو کیٹی بندر کے ساحلی علاقے سے ٹکرائے گا۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان کی وجہ سے کراچی کے علاوہ ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھرپارکر کے علاقے متاثر ہونے کا امکان ہے جہاں تیز اور تند ہوائوں کے ساتھ شدید بارش کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ طوفان کی صورتحال کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے، اس سلسلہ میں این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان باقاعدگی کے ساتھ رابطہ اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں صورتحال پر غور کیا جا رہا ہے۔

شیری رحمن نے کہا کہ طوفان کے اثرات کی زد میں آنے والے علاقوں میں کمزور انفراسٹرکچر، بل بورڈز، کچی چھتوں اور سولر پینلز کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطرے سے دوچار علاقوں سے لوگوں کے انخلاء کیلئے بروقت اقدامات شروع کئے گئے، متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے اور اس مقصد کے لئے کیلئے 75 ریلیف کیمپس قائم کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کھلے سمندر سے متعلق بھی انتباہات جاری کئے گئے ہیں، شہری ساحل کا رخ نہ کریں جبکہ ماہی گیروں کو بھی اس حوالے سے احتیاط برتنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام متعلقہ محکمے اور ادارے الرٹ ہیں، ہمیں صورتحال کے پیش نظر محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے جبکہ لوگوں کو اس بارے میں مسلسل آگاہی دینے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندری طوفان کے اثرات کی زد میں آنے والے زیادہ تر علاقے گذشتہ سال کے سیلاب سے بھی متاثر ہوئے تھے اور مقامی لوگ اب بھی مختلف مصائب کا شکار ہیں، متاثرین کو اس صورتحال میں بروقت ریلیف فراہم کرنے اور بعد ازاں ان کی آبادکاری اور تعمیرنو کے کاموں پر توجہ دی جائے گی۔

فلائیٹ آپریشنز سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ طوفان کے اثرات کے باعث چھوٹے جہازوں کا فلائیٹ آپریشن بند کیا جا رہا ہے تاہم بڑے جہازوں کے لئے صورتحال کے مطابق ایڈوائزری جاری کریں گے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ آفات موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا نتیجہ ہیں، پاکستان کا اس میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود یہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اس موقع پر چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے سمندری طوفان کے بارے میں بتایا کہ بائپر جوائے طوفان پیشگوئی اور اندازوں کے مطابق اپنی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے جو کل صبح 10 بجے سے 11 بجے کے قریب سندھ کے جنوب مشرقی ساحلی علاقہ کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیانی ساحلی علاقے سے ٹکرائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے سندھ کے ملحقہ ساحلی علاقوں کے علاوہ بلوچستان کے چند علاقے بھی متاثر ہونے اور اربن فلڈنگ کاخدشہ ہے جس کے پیش نظر متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مقامی لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کیلئے قائم کیمپس کے بارے میں تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ 73 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر قائم 75 کیمپس میں منتقل کیا گیا ہے، نقل مکانی کرنے والوں کو ریلیف کیمپوں میں شیلٹر کے ساتھ خوراک، صذف پانی اور طبی امداد فراہم کی جارہی ہے جبکہ ان کا ڈیٹا بھی مرتب کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طوفان کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تمام متعلقہ ادارے مربوط انداز میں کام کر رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور متعلقہ این جی اوز سمیت تمام شراکت داروں کے ساتھ اس کے متعلق بروقت معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مانیٹرنگ و ریسکیو ٹیمیں فیلڈ میں متحرک ہیں جو بوقت ضرورت مزید لوگوں کے انخلاء کو بھی یقینی بنائیں گی۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ایسے علاقوں کی نشاندہی کردی گئی ہے جہاں پانی کھڑا ہونے کا امکان ہے اور اس پہلو کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

پرائیویٹ اور چھوٹے طیاروں کا فلائٹ آپریشن بند

دریں اثنا وفاقی وزیر ماحولیات شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ کراچی میں بارش اور اربن فلڈنگ کے خطرے کے پیشِ نظر ایئر پورٹ پر چھوٹے طیاروں کا فلائٹ آپریشن بند کردیا گیا ہے، شام کو ہم کمرشل طیاروں کے حوالے سے بھی فیصلہ کریں گے۔

قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ بائپرجوائے پاکستان کے ساحلی علاقوں کی طرف شدت سے آ رہا ہے، ساحلی علاقوں پر اس کا اثر ہو گا، کیٹی بندر کے ساتھ شدت سے یہ طوفان ٹکرائے گا جبکہ بلوچستان کے کچھ علاقے تیز ہواؤں اور بارش سے متاثر ہوں گے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور ملیر طوفان سے متاثر ہوں گے، اس ضمن میں 70 سے زائد ریلیف کیمپ بنا دیے گئے ہیں، جو لوگ رہ گئے ہیں ان کی نقل مکانی کرا رہے ہیں۔

قبل ازیں اسلام آباد میں چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ بائپر جوائے پیش گوئی کے مطابق آگے بڑھے رہا ہے، کل کیٹی بندر میں خشکی سے ٹکرائے گا، کراچی میں یہ طوفان خشکی سے نہیں ٹکرائے گا لیکن بلند لہریں، تیز ہوائیں اور بارشوں کی صورت میں اس کے ممکنہ اثرات ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انخلا کے عمل میں تمام ادارے اور محکمے تعاون کر رہے ہیں، تمام اقدامت بروقت اٹھائے جارہے ہیں، 75 ریلیف کیمپس قائم کردیے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کیمپس اسکول کالجز میں قائم کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے، لوگوں سے اپیل ہے کہ سمندری علاقوں سے دور رہیں، اتنی بڑی آبادی پر کوئی زور زبردستی نہیں کرسکتا، شہری گھروں سے باہر غیر ضروری مصروفیات ترک کردیں۔

پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ کراچی میں ابھی بھی اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے، اس کے لیے کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے رابطے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انخلا کا عمل جاری ہے، اب تک 62 ہزار لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرلیا گیا ہے۔

ڈی ایچ اے کراچی سے لوگوں کا انخلا

دوسری جانب عوام نے کراچی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے رضاکارانہ طور پر انخلا شروع کردیا۔

ترجمان ڈی ایچ اے فرخ رضوی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ صورت حال مزید خراب ہونے اور ضرورت پڑنے پر لازمی انخلا شروع ہو جائے گا۔

اس سے قبل، ڈی ایچ اے نے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک پیغام میں ہائی الرٹ علاقوں کے شہریوں سے اپنے گھر خالی کرنے پر زور دیا گیا۔

اس میں کہا گیا اونچی اٹھتی لہریں کراچی کے لیے خطرے کا باعث ہیں، عبدالستار ایدھی ایوینیوز اور دو دریا کے علاقوں میں مقیم رہائشیوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ڈی ایچ اے کراچی کی جانب سے جاری ہدایات پر عمل کریں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اگر رہائشیوں کو ٹرانسپورٹ کے مسائل یا کسی رشتہ دار کے گھر جانے میں مشکلات کا سامنا ہے تو اس سلسلے میں ریلیف کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں۔

ڈی ایچ اے کی ہیلپ لائن نے کہا کہ رہائشی خود امدادی کیمپوں میں جا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اتھارٹی انہیں منتقلی کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں حفاظت اور سلامتی کے مشیر نوربرٹ المیڈا نے کہا کہ ڈی ایچ اے نے سی ویو اپارٹمنٹس کے گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کو آج عمارت خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ڈی ایچ اے ویجیلنس رینجرز اور پولیس کی مشترکہ ٹیم سے ملاقات ہوئی جو سی ویو اپارٹمنٹس میں دروازوں کی گھنٹی بجانے آئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا پیغام اور حکم صرف گراؤنڈ فلور پر رہنے والے رہائشیوں کے لیے ہے کہ وہ 14 جون کو گھروں سے نکل جائیں۔

اس کے علاوہ ایس ایس پی ساؤتھ سید اسد رضا نے بھی ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ تقریباً 2000 اپارٹمنٹس میں رہنے والے لوگ وہاں سے نکلنے سے گریزاں ہیں جب کہ پولیس انہیں زبردستی گھروں سے نکلا نہیں سکتی۔

سی ویو سے درجنوں افراد زیر حراست، ہاکس بے جانے والے راستے بند

ایس ایس پی رضا نے بتایا کہ ساحل پر جانے سے روکنے کے لیے نافذ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر 2 درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔

ہاکس بے کی طرف جانے والی سڑکیں کنٹینرز سے بند کر دی گئیں۔ — تصویر امتیاز علی
ہاکس بے کی طرف جانے والی سڑکیں کنٹینرز سے بند کر دی گئیں۔ — تصویر امتیاز علی

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو یہ بھی بتایا کہ ڈیفنس فیز 8 میں سی ویو کے قریب واقع تمام ریسٹوراٹس کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے بچنے کے لیے بند کر دیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے نے ریسٹورنٹ کے مالکان کو جگہ خالی کرنے کا کہہ دیا ہے۔

دوسری جانب کیماڑی پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ہاکس بے کی طرف جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ سڑکوں پر پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ طوفان کی صورتحال برقرار رہنے تک ساحلوں کی طرف جانے سے گریز کریں۔

اس میں کہا گیا کہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔

سول ایوی ایشن نے کراچی ایئرپورٹ کی بندش کی خبریں غلط قرار دے دیں

بائپر جوائے طوفان کے حوالے سے کراچی ائیرپورٹ بندش کو خبریں غلط قرار دیتے ہوئے ترجمان سول ایوی ایشن نے کہا کہ خراب موسم کی پیشگوئی کی صورت میں ائیرپورٹس پر طے شدہ ایس او پیز کے تحت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ائیرپورٹس پر ہوا کی رفتار اور موسم کے حوالے سے پائلٹس کو مسلسل با خبر رکھا جانا معمول کی بات ہے، غیر معمولی حالات میں پائلٹس زمینی و موسمی حقائق دیکھتے ہوئے ٹیک آف یا لینڈنگ کے لیے قریبی موزوں منزل کا فیصلہ کرتے ہیں ۔

مزید کہا گیا کہ سول ایویشن اس حوالے سے ائیرلائنز اور پائلٹس کو پہلے ہی احتیاط برتنے کا عندیہ جاری کرچکی ہے، خراب موسم میں ائیرلائنز کی جانب سے شیڈولز میں خلل پڑسکتا ہے۔

’سائیکلون الرٹ‘ جاری

دریں اثنا این ڈی ایم اے کی جانب سے سمندری طوفان کے پیش نظر ’سائیکلون الرٹ‘ جاری کرتے ہوئے شہریوں سے محتاط رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔

این ڈی ایم اے کی آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ سمندری طوفان کے ممکنہ اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل ضروری ہے۔

رینجرز کی امدادی سرگرمیاں جاری

پاکستان رینجرز (سندھ) کی جانب سے شاہ بندر سجاول، ٹھٹہ، گھارو اور بدین کی ساحلی پٹی میں متوقع سمندری طوفان کی زد میں آنے والے متاثرین کے لیے خشک راشن کی ترسیل کا عمل جاری ہے۔

ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق راشن بیگز، اشیائے خورونوش، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی پر مشتمل مجموعی طور پر 11 راشن ٹرک متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ کر دیے ہیں، جس میں ایک موبائل کچن اور 4 ٹرک فلاحی تنظیم کے تعاون سے مہیا کیے گئے ہیں۔

سندھ رینجرز کی جانب سے بارشوں اور سیلاب کے پیشِ نظر وبائی امراض سے بچاؤ اور دیگر طبی امداد کے لیے موبائل میڈیکل کیمپ کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

بدین، سجاول اور ٹھٹہ کے متاثرہ علاقوں میں رینجرز کی جانب سے 77 ریلیف کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ 3 روزہ جاری رہنے والے ریلیف آپریشن کے دوران بدین، ٹھٹھہ اور سجاول سے مجموعی طور پر 60 ہزار 442 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

دریں اثنا وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے بھی تصدیق کی کہ مجموعی طور پر 64 ہزار 107 افراد کو پُرخطر علاقوں سے نکال لیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی یقین دہانی

اقوام متحدہ نے سمندری طوفان بائپر جوائے کے اثرات سے نمٹنے میں پاکستان اور بھارت کو مدد کا یقین دلایا ہے۔

سرکاری خبررساں ادارے ’ریڈیو پاکستان‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے یہ یقین دہانی روز مرہ بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کرائی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان اور دوسرے ممالک میں اقوام متحدہ کی ٹیمیں طوفان کی نگرانی کررہی ہیں اور طوفان کے بعد کی تیاری کے لئے جو کچھ وہ کرسکتے ہیں کررہے ہیں۔

’طوفان اب بھی شدید ہے‘

گزشتہ روز بائپر جوائے کمزور ہو کر کیٹیگری 3 کے ’انتہائی شدید سمندری طوفان‘ میں تبدیل ہو گیا تھا اور مشرقی وسطی مقام سے شمال مشرقی بحیرہ عرب کی جانب بڑھ گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے کہا کہ یہ تبدیلی صرف اس سسٹم کے ارد گرد چلنے والی ہواؤں کی رفتار میں کمی ظاہر کرتی ہے لیکن طوفان اب بھی شدید ہے اور خاص طور پر ان علاقوں میں بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے جن سے یہ براہ راست ٹکرائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ طوفان 1999 کے طوفان کے مقابلے میں کم شدید ہے، بارش کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24 گھنٹوں کے اندر 50 سے 60 ملی میٹر بارش ہو سکتی ہے۔

محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کے مطابق لینڈ فال پوائنٹ پر 3.5 میٹر تک اونچی طوفانی لہروں کی توقع ہے، جس کے سبب ساحلی پٹی کے ساتھ واقع نشیبی بستیوں کے ڈوبنے کا خدشہ ہے، اس کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندری حالات انتہائی خراب ہوں گے۔

بھارت اور پاکستان کے ساحلی علاقوں سے ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے، گزشتہ روز بھارت کے ضلع کچھ اور راجکوٹ میں 3 افراد کی موت واقع ہوگئی جبکہ ممبئی میں 4 لڑکے ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔

شمال مشرقی بحیرہ عرب میں موجود بائپر جوائے کو اب ’انتہائی شدید سمندری طوفان‘ کی کیٹگری میں شمار کیا جارہا ہے جو کہ اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔

طوفان کی سطح پر ہوا چلنے کی رفتار تقریباً 140 سے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ اس کے مرکز کے گرد یہ رفتار 170 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔

محکمہ موسمیات نے مزید بتایا کہ بائپر جوائے آج صبح تک مزید شمال کی جانب بڑھے گا جس کے بعد اس کا رخ شمال مشرق کی جانب ہوجائے گا، 15 جون کی سہہ پہر طوفان سندھ کے علاقے کیٹی بندر اور بھارتی گجرات سے ٹکرائے گا۔

طوفان کی موجودہ رفتار کے پیشِ نظر ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میرپورخاص اور عمرکوٹ میں جمعہ تک گرج چمک کے ساتھ تیز ہواؤں اور گردوغبار کے طوفان کا امکان ہے، تیز ہواؤں کی رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہونے کا امکان ہے۔

کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، شہید بینظیر آباد اور سانگھڑ میں بھی آج اور کل (جمعرات کو) اسی طرح کا موسم اور 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل سکتی ہیں۔

انخلا کا عمل جاری

وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے سے جاری کردہ معلومات کے مطابق 3 اضلاع میں مقیم 71 ہزار 380 کی کُل غیر محفوظ آبادی میں سے گزشتہ روز شام تک کُل 56 ہزار 985 افراد کو محفوظ مقام منتقل کردیا گیا۔

ان میں سے 22 ہزار سے زائد لوگوں کو رضاکارانہ طور پر نکال لیا گیا، یہ انخلا ضلع ٹھٹہ کے علاقے کیٹی بندر اور گھوڑا باری، شاہ بندر، ضلع سجاول کے علاقے خروچن اور جاتی، شہید فاضل راہو تحصیل اور بدین سے کیا گیا۔

سرکاری اسکولوں اور کالجوں سمیت مختلف مقامات پر 37 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے شاہ بندر کے مختلف دیہاتوں سے 700 افراد اور 64 ماہی گیروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا۔

پاک بحریہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہیڈکوارٹرز کمانڈر کراچی میں ایک سائیکلون مانیٹرنگ سیل فعال کردیا گیا ہے، جبکہ پی این جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً ماہی گیر برادری کو باقاعدگی سے معلومات فراہم کر رہا ہے۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور حیدرآباد، شہید بینظیر آباد، سکھر اور سانگھڑ سمیت سندھ کے دیہی علاقوں میں نیول ایمرجنسی رسپانس اور میڈیکل ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں جبکہ بحریہ کے جہاز کھلے سمندر میں مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت کے محکمہ موسمیات کی شدید نقصان کی وارننگ

بھارت کے محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ ملک کے مغربی ساحلی علاقوں کی سڑکیں زیر آب آنے اور کچے مکانات کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔

جاری بیان میں کہا گیا کہ بائپر جوائے گجرات کے جاکھاؤ پورٹ سے تقریباً 280 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے اور جمعرات کی شام ساحل سے ٹکرائے گا۔

ماہرین موسمیات نے کہا کہ طوفان کے باعث 125سے 135 کلومیٹر (78-84 میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیںاور خبردار کیا کہ بحیرہ عرب میں اونچی لہروں کے باعث نشیبی علاقیں زیر آباد آسکتے ہیں۔

محکمہ موسمیات نے ایک بیان میں کہا کہ عارضی چھتوں والے مکانات مکمل طور پر تباہ ہو سکتے ہیں جب کہ کھڑی فصلوں، باغات اور سڑکوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے ایک عہدیدار نے کہا کہ گجرات کے ساحلی اضلاع میں شدید بارش شروع ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدھ کی شام سے بارش کی شدت اور ہوا کی رفتار مزید بڑھ جائے گی، جمعرات کو انتہائی تیز بارش متوقع ہے، کچھ اضلاع میں جمعرات کو 200 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو سکتی ہے۔

ریاستی حکومت نے کہا کہ ساحلی گجرات کے آٹھ اضلاع کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ماہی گیری جمعے تک معطل ہے اور اسکولوں نے تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے، گجرات کے ساحلوں سے منسلک بہت سی تیل کی تنصیبات اور بڑی بندرگاہیں آپریشن معطل کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

حکام نے کہا کہ ہم اب تک 45 ہزار سے زیادہ لوگوں کو نکال چکے ہیں، انخلا کی کارروائیائی شام تک جاری رہیں گی۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ بھارتی مسلح افواج ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ڈیزاسٹر رسپانس ٹیموں کو متحرک کردیا گیا ہے۔

بھارت میں دیوار گرنے سے دو بچوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے جب کہ موٹر سائیکل سوار خاتون درخت گرنے موت کے منہ میں چلی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں