’بلیک میل‘ کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے پاکستان سری لنکا بنے، پھر مذاکرات کریں، وزیر خزانہ

اپ ڈیٹ 15 جون 2023
وزیر خزانہ نے کہا آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنی نہ دیں—فوٹو:ڈان نیوز
وزیر خزانہ نے کہا آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنی نہ دیں—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارا وقت ضائع کر رہا ہے ، پاکستان کو بظاہر بلیک میل کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بنے اور پھر مذاکرات کریں۔

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان بالا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کہ آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنی نہ دیں، بطور خود مختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہئے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس چھوٹ نہیں دیں گے تو شرح نمو کیسے بڑھے گی، ریونیو نہیں آئے گا تو ملک کیسے چلے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو آئی ٹی میں رعایت دینے پر پابندی عائد نہیں کرسکتے۔

انہوں نے عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہر چیز انِ آرڈر ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور نواں جائزہ ضرور اسی ماہ مکمل ہوگا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اولین ترجیح ہے جو ادائیگیاں کرنی ہیں، وہ بروقت کی جائیں گی، ملک میں ڈالر کی اسمگلنگ ہورہی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے دشمن جھوٹ بول کر لوگوں کو ڈرا رہے ہیں، ہر کسی کے پیسے اس کی امانت ہیں اور محفوظ ہیں۔

اسحٰق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے خلاف جیو پولیٹکس ہو رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے، انہوں نے کہا آئی ایم ایف چاہتا ہے پاکستان سری لنکا بنے اور پھر مذاکرات کریں۔

یاد رہے کہ ملک آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے ایک سال سے جدوجہد کر رہا ہے جب کہ 2 روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سےجاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی گئیں جو کہ ماہانہ بنیادوں پر 4 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد کم ہیں۔

کم ترسیلات زر کی آمد بیرونی کھاتوں کے حوالے سے صورتحال کو مزید مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔

گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے بجٹ پر بات کر رہا ہے، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا تھا کہ ’مالی سال 2024 کے بجٹ پر بات چیت کا مرکز سماجی اخراجات میں اضافے کی گنجائش پیدا کرتے ہوئے قرضوں کے استحکام کے امکانات مضبوط کرنے کی ضرورت کو متوازن کرنا ہے‘۔

ملک گزشتہ بجٹ میں طے کیے گئے اپنے تقریباً تمام معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا، خاص طور پر اس کی ترقی کا ہدف، جو کہ ابتدائی طور پر 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا، جسے رواں سال کے اوائل میں کم کر کے 2 فیصد کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بجٹ میں اخراجات اور ٹیکسز پر تشویش ہے۔

عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اب پاکستان کی معیشت کو تھوڑا نمو کی جانب لے کر جانا چاہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف حکام دیکھتے ہیں کہ ہمارے پرائمری سرپلس (آمدنی کے مقابلے میں اخراجات) کی پوزیشن کیا ہے، آپ نے خود دیکھا کہ مالی سال 24-2023 کا جو بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا، اس میں ہم بجٹ پہلے ہی پرائمری سرپلس دکھا رہے ہیں، اب اس میں وہ تھوڑی تفصیلات دیکھیں گے، پھر وہ اپنی چیزیں پوچھیں گے، پھر وہ اپنی گزارشات ہمارے سامنے پیش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر آئی ایم ایف حکام کے خدشات و تحفظات یا ان کی دلچسپی کا پہلو ٹیکسٹیشن سائڈ ہے، آپ کو یہ پتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ پاور سیکٹر کو ہمیشہ سے تھوڑا سا اہمیت دیتا ہے۔

گزشتہ روز ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے پاس عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو 6.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت 2.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے پر قائل کرنے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے، اس نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر ملک، آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے میں ناکام رہا تو وہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار متعدد سیشنز میں آئی ایم ایف حکام کو نویں جائزے کی تکمیل کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے صرف 2 ہفتے رہ گئے ہیں، یا پھر ناکامی کی صورت میں معیشت پر شدید نتائج مرتب ہوسکتے ہیں، بیل آؤٹ پیکیج کا اختتام 30 جون کو ہوگا۔

دنیا کی صف اول کی تقریباً تمام ریٹنگ ایجنسیوں نے موجودہ مالی سال میں متعدد بار پاکستانی معیشت کی ریٹنگ میں تنزلی کی ہے، زیادہ تر کُلی معاشی اشاریے منفی ہیں جبکہ زرمبادلہ کے خراب ذخائر کی وجہ سے پورے مالی سال معیشت دباؤ کا شکار رہی۔

حکومت دوست ممالک اور ڈونر ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانے کی جہدوجہد کر رہی ہے، لیکن خراب معاشی کارکردگی اس کی مضبوط وجہ ہے کہ مددگار فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔

حکومت کے حالیہ تخمینے کے مطابق مالی سال 2023 میں معاشی نمو 0.29 فیصد رہی لیکن غیرجانبدار تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ معاشی نمو 2 تا 3 فیصد سکڑ سکتی ہے۔

گزشتہ روز آئی ایم ایف نے نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس ایمنسٹی کو آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف قرار دیا تھا اور 2024کے بجٹ کے حوالے سے کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ قرض دہندہ پاکستان کے ساتھ اس مسودے کی منظوری سے قبل بجٹ کو بہتر بنانے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں