بائپر جوائے کا خطرہ ٹلنے کے بعد سندھ میں زندگی معمول پر آگئی

کراچی میں حکام نے جمعہ کو کھلے سمندر میں جانے پر عائد پابندی ختم کردی—تصویر: عمیر علی
کراچی میں حکام نے جمعہ کو کھلے سمندر میں جانے پر عائد پابندی ختم کردی—تصویر: عمیر علی

بائپرجوائے کے خشکی سے ٹکرانے سے قبل کئی روز کی خوف و ہراس اور تیاریوں کے بعد سندھ کے ساحلی علاقوں میں زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئی، طوفان کے ساتھ 125 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں بھارتی گجرات سے ٹکرائیں لیکن پھر راتوں رات کمزور پڑ گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ اور پڑوسی ملک کی ریاست گجرات میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد نے بائپر جوائے کے راستے سے نقل مکانی کی۔

پاکستان طوفان کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم کچھ ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا۔

کراچی میں حکام نے جمعہ کو کھلے سمندر میں جانے پر عائد پابندی ختم کردی، ٹھٹھہ میں بوندا باندی اور ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ دکانیں اور بازار آہستہ آہستہ دوبارہ کھل گئے۔

40 سالہ سرکاری ملازم ہاشم شیخ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اب تک بہت اچھا ہے، ہمیں گزشتہ کئی روز سے خوف کی کیفیت میں تھے لیکن اب لگتا ہے کہ یہ ختم ہو گئی ہے۔‘

بائپر جوائے بحیرہ عرب میں تیسرے درجے کا طوفان ہونے کے بعد خشکی تک پہنچتے ہوئے پہلے درجے کا بن گیا تاہم محکمہ موسمیات نے ماہی گیروں کو مشورہ دیا کہ وہ کھلے سمندر میں جانے سے گریز کریں جب تک کہ یہ نظام ہفتہ (آج) تک ختم نہیں ہو جاتا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ والے علاقوں میں زندگی معمول پر آرہی ہے کیونکہ طوفان سے لاحق خطرہ ٹل گیا ہے۔

سندھ کے صوبائی محکمہ آبپاشی کے ایک عہدیدار کے مطابق کیٹی بندر کی فشنگ بندرگاہ کی طوفان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی پیش گوئی تھی لیکن ’کوئی نقصان نہیں ہوا‘۔

شہر میں داخل ہونے والے سمندری پانی میں کمی کے بعد کچھ دکانیں کھل گئیں، ماہی گیروں نے آہستہ آہستہ کیٹی بندر میں جیٹی کے قریب اپنے بانسوں سے بنے ٹھکانوں پر واپس جانا شروع کر دیا ہے البتہ انہیں کئی روز تک ماہی گیری نہ کرنے پر معاشی نقصان کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔

میر حسن ملاح نے کہا کہ ’تاہم زیادہ تر دکانیں بند اور گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں، ’میں سائیکلون بِائپرجوائے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ابھی میرپور ساکرو سے واپس آیا ہوں‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ماہی گیری کے ذریعے 15 سو سے 2 ہزار روپے یومیہ کماتے ہیں لیکن جب سمندر میں جانے سے منع کیا گیا تو ان کی آمدنی ختم ہوگئی۔

ایک اور ماہی گیر پیارو ملاح سمندری پانی سے کیکڑے پکڑ کر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ چند روز میں میری وہ آمدنی ختم ہوگئی ہے، ہم روزانہ کام کر کے کمانے کا انتظار کررہے ہیں‘۔

میر حسن ملاح نے کہا کہ ہمیں میرپور ساکرو لے جایا گیا لیکن ہم خود واپس آگئے ہیں، میں ریلیف کیمپ میں نہیں ٹھہرا کیونکہ اس میں فیملی کے ساتھ رہنے کے لائق جگہ نہیں تھی، لہذا میں ایک دوست کے خاندان کے پاس پہنچا۔

قریب ہی کچھ مزدور سندھ کے محکمہ آبپاشی کی جانب سے کیٹی بندر شہر کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ایک بند کو مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔

حلقہ گھوڑا باری سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی علی حسن زرداری نے کیٹی بندر میں نئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر سمیت ترقیاتی کاموں میں اہم کردار ادا کیا ہے، انہیں صوبائی حکومت میں ڈی فیکٹو وزیر آبپاشی سمجھا جاتا ہے۔

کیٹی بندر تعلقہ گھوڑا باری کی تین یونین کونسلوں میں 65 ہزار کے قریب آبادی والا شہر ہے، یوسی چیئرمین عبدالواحد میمن نے کہا کہ کیٹی بندر یونین کونسل کی آبادی 19 ہزار 700 کے قریب ہے، سائیکلون کے ممکنہ خطرے کی وجہ سے سبھی لوگ علاقہ چھوڑ گئے تھے لیکن اب وہ واپس آ رہے ہیں’۔

لوگ اپنے طور پر یا انتظامیہ کی کوششوں سے کراچی کے ابراہیم حیدری، گھارو، میرپور ساکرو اور دیگر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

کیٹی بندر کا دورہ کرنے والے سندھ کے قائم مقام سیکریٹری آبپاشی ظریف خیرو نے کہا کہ سمندری طوفانوں کا ہمیشہ ساحلی علاقے میں اثر ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں