شادمان تھانہ حملہ کیس: یاسمین راشد سمیت 11 ملزمان کی درخواستِ ضمانت مسترد

17 جون 2023
جج اعجاز احمد بٹر نے 12 ملزمان کی درخواستیں خارج کر دیں—اسکرین شاٹ: ٹوئٹر
جج اعجاز احمد بٹر نے 12 ملزمان کی درخواستیں خارج کر دیں—اسکرین شاٹ: ٹوئٹر

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شادمان تھانہ حملہ کیس میں پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر 11 ملزمان کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج اعجاز احمد بٹر نے 9 مئی کے فسادات کے دوران تھانے پر حملے کے 34 ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

جج اعجاز احمد بٹر نے 12 ملزمان کی درخواستیں خارج کر دیں جبکہ دیگر 22 افرادکو ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر ضمانت پر رہا کر دیا، جن لوگوں کو ضمانت ملی ان میں زیادہ تر نابالغ افراد شامل ہیں۔

علاوہ ازیں جج نے عسکری ٹاور، ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر پر حملے اور کلمہ چوک پر کنٹینر کو نذر آتش کرنے سمیت 3 دیگر مقدمات میں ڈاکٹر یاسمین راشد کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں پر پولیس اور استغاثہ کو نوٹس جاری کر دیے۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ رانا مدثر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے درخواست ضمانت منظور کرنے کی استدعا کی۔

جج نے کنٹینر جلانے سے متعلق کیس کی سماعت 20 جون تک، ٹاور کیس کی سماعت 21 جون تک اور مسلم لیگ (ن) کے دفتر جلانے سے متعلق کیس کی سماعت 22 جون تک ملتوی کر دی۔

شناخت پریڈ

لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ گرفتاری کے 48 گھنٹے کے اندر جوڈیشل مجسٹریٹ کی نگرانی میں ملزم کی شناخت پریڈ مکمل کروائی جانی چاہیے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر گرفتاری کے 48 گھنٹے میں شناختی پریڈ نہیں کرائی گئی تو مجسٹریٹ یہ معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور متعلقہ پولیس ہیڈ کے نوٹس میں لائے گا۔

اگر سیشن جج کو تفتیشی افسر کی جانب سے کوئی غیرذمہ داری یا ڈیوٹی میں کوتاہی نظر آتی ہے تو وہ اس تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے حکم دیا کہ مجسٹریٹ ہر صورت میں اگلے دن شناخت پریڈ کو یقینی بنائے، انہوں نے یہ ہدایات ملتان میں پی ٹی آئی کی جانب سے 9 مئی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے کچھ مشتبہ افراد کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے جاری کیں، درخواست گزار پولیس کی جانب سے شناختی پریڈ میں تاخیر پر سراپا احتجاج تھے۔

درخواست گزاروں کو ابتدائی طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، بعدازاں ان کی نظر بندی کے احکامات کو منسوخ کر دیا گیا تھا لیکن پولیس نے انہیں 9 مئی کے واقعات سے متعلق فوجداری مقدمات میں گرفتار کر لیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر شناختی پریڈ کی موجودہ پریکٹس غیر مؤثر ہے، ملزم کی گرفتاری کے بعد شناخت پریڈ میں تاخیر اس عمل کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے، اس طرح کی تاخیر کسی مشتبہ شخص کے لیے غیر ضروری مشکلات کا باعث بننے کے علاوہ آزادی، وقار، مناسب طریقہ کار اور منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں