سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عہدوں سے استعفیٰ دیتے ہوئے انتخابی سیاست میں مزید فعال نہ رہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

ڈان ڈاٹ کام کو موصول استعفیٰ میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ’پارٹی ڈھانچے کی آئندہ تنظیم نو کو دیکھتے ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں باضابطہ طور پر وہ کروں جو پہلے سے ہی سچ ہے‘۔

پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو لکھے گئے استعفے میں مفتاح اسمٰعیل نے لکھا کہ ’لہٰذا میں مسلم لیگ (ن) کے بطور جنرل سیکرٹری سندھ کے عہدے اور پارٹی کی تمام کمیٹیوں سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘

سابق وفاقی وزیر نے پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نہ صرف پارٹی میں بلکہ حکومت میں بھی ذمہ داریاں سونپیں۔

انہوں نے لکھا کہ پارٹی قائد میاں نواز شریف اور صدر میاں شہباز شریف گزشتہ کئی برسوں سے مجھ پر مہربان رہے اور خیال رکھا، میں ہمیشہ ان کے اعتماد اور حمایت کا مشکور رہوں گا۔

مفتاح اسمٰعیل نے سینیئر پارٹی رہنماؤں بشمول احسن اقبال، خواجہ آصف، ایاز صادق، پرویز رشید اور شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ان پر مہربان رہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اگرچہ میں اب انتخابی سیاست میں سرگرم نہیں رہوں گا، لیکن میں آپ کے ساتھ سماجی طور پر منصفانہ، معاشی طور پر مستحکم اور اچھی حکمرانی والا پاکستان دیکھنے کی شدید خواہش کا اظہار کرتا ہوں، میری نیک تمنائیں آپ کے لیے، پارٹی اور اس کے تمام رہنماؤں کے لیے ہیں۔

اس راستے کا سفر

بطور وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کو آگے بڑھایا تھا،؎ لیکن ان کی تجاویز پارٹی چیف آرگنائزر مریم نواز کی تنقید کی زد میں آئیں، جنہوں نے گزشتہ سال اگست میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کو عوامی طور پر مسترد کر دیا تھا۔

اس کے بعد مفتاح اسمٰعیل نے کہا تھا کہ وہ ’آسان ہدف ہیں‘ اور پھر اسحٰق ڈار کی راہ ہموار کرنے کے لیے انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

رواں برس جنوری میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں اسحٰق ڈار کی ایما پر عہدے سے ہٹایا گیا تھابعدازاں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر انہوں نے اپنے پیش رو پر عوامی سطح پر سخت تنقید کی تھی۔

اسی دوران انہوں نے شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور اسلم رئیسانی کے ہمراہ ملک کے مختلف شہروں میں ’ری ایمیجننگ پاکستان‘ کے نام سے مہم کا آغاز کیا تھا۔

انہوں نے ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز پر کئی سیمینار منعقد کیے تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو پاکستان کو موجودہ دلدل سے نکالنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

مہم کے منتظمین تمام رہنماؤں نے کئی مواقع پر اس بات کی تردید کی تھی کہ اس مہم کو سیاسی پارٹی کے آغاز کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس عزم کا بھی اظہار کیا تھا کہ یہ ایک غیر سیاسی مہم تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں